اندوستانی حکومت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات ایک پاکستانی اہلکار کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی انڈیا کے ایک سفارتخار کو 24 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔
یہ اقدام امریکی صدر ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ( ڈی جی ایم اوز) کے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد سامنے آیا ہے۔
بات چیت کے دوران، دونوں اطراف کے ڈی جی ایم اوز نے ایک بھی گولی چلانے یا ایک دوسرے کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی شروع نہ کرنے پر اتفاق کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستانی اہلکار کو 24 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بھارت نے اس فیصلے کے بارے میں باضابطہ ڈیمارچ دینے کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن کے چارج ڈی افیئرز کو آج طلب کیا تھا۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کو ایک مکمل اور فوری جنگ بندی کا اعلان کئی دنوں کے فوجی تبادلوں کے بعد کیا گیا جس نے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔
یہ اعلان پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا اور بعد میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس کی تصدیق کی۔
بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیرکے پہلگام میں 22 اپریل کو ایک حملے کے بعد کشیدگی پھیل گئی، جس میں 26 شہری ہلاک ہوئے۔
بھارت نے کوئی ثبوت پیش کیے بغیر پاکستان میں مقیم عناصر پر الزام لگایا، اسلام آباد نے الزامات کو مسترد کردیا۔ اس کے جواب میں، بھارت نے واہگہ بارڈر بند کر دیا، ویزے منسوخ کر دیے، اور سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا- پاکستان نے اسے جنگ کا عمل کہا۔ یہ تنازعہ بھارت کے میزائل حملوں اور ڈرون حملوں کے ساتھ شدت اختیار کر گیا جب اس نے اپنا آپریشن سندھور شروع کیا۔
پاکستان کی فوج نے جوابی کارروائی میں آپریشن بنیانم مارسو شروع کیا اور پانچ بھارتی جیٹ طیاروں کو مار گرایاجن میں رافیل بھی شامل تھااور 77 اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون کو روک دیا۔ واشنگٹن کی قیادت میں سفارتی مداخلت کے بعد، دونوں فریقوں نے زمینی، فضائی اور سمندر میں فوجی سرگرمیاں روکنے پر اتفاق کیا۔