Follw Us on:

آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی اور نواز شریف کو مرد مجاہد ثابت کرنے کا بیانیہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Khalid shahzad blog
آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی اور نواز شریف کو مرد مجاہد ثابت کرنے کا بیانیہ

کبھی کبھی لفظوں کے بدن پر ایسی وردی پہنا دی جاتی ہے کہ وہ’ نعرہ ‘بن جاتے ہیں، وہی نعرہ جو قوموں کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے یا پھر کسی ایک شخص کے ماتھے پر فاتح کا تمغہ چسپاں کر سکتا ہے۔

حالیہ دنوں میں صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی جانب سے ایک ایسا ہی نعرہ تخلیق ہوا ’نواز شریف نے آپریشن بنیان مرصوص ڈیزائن کیا تھا‘ اور پھر اگلے ہی دن وزیر اعظم شہباز شریف  نے اس نعرے کی وردی اتار کر اسے گھریلو لباس پہنا دیا گیا کہ نہیں یہ سب کچھ تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کارنامہ تھا۔

گویا لفظ کسی میک اپ آرٹسٹ کے برش پر بیٹھا ہوا چہرہ ہو، جسے جب چاہو خوبصورت بنا لو، جب چاہو بدصورت لیکن سوال یہ ہے کہ اس چہرے کے پیچھے اصل چہرہ کون سا ہے؟ کیا جنگی منصوبہ بندی واقعی گلی کے نکڑ پر بیٹھے’ سیاسی کلب‘ کے ہاں چائے کے کپ کے ساتھ ترتیب دی جاتی ہے یا پھر اس کے پیچھے وہ ادارے ہوتے ہیں جن کا ہر فیصلہ، ہر حکمت عملی صدیوں پر محیط تربیت،بصیرت اور قومی سلامتی کی تہہ در تہہ فکروں کا مظہر ہوتا ہے؟۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی جنگی بادل چھائے، سیاستدانوں  نے’ اپنے منہ پر چمکدار پاوڈر‘لگا کر اسے ’انتخابی پوسٹر‘ بنانے کی کوشش کی، 1965 کی جنگ ہو یا کارگل کی گونج، ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی ’سیاسی آہنگ‘داخل ہو ہی جاتا ہے جو پھر سالوں تک تاریخ کے سینے میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:‘آپریشن بنیان المرصوص’ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا، مریم نواز

عظمیٰ بخاری کا دعویٰ بظاہر ایک جملہ تھا لیکن حقیقت میں یہ ایک پورا بیانیہ بنانے کی کوشش تھی، وہ بیانیہ جو نواز شریف کو ’مردِ مجاہد‘ ثابت کرے،جس  نے دشمن کی چھاتی پر خنجر کا خاکہ بنایا اور پھر اپنے بستر پر آرام سے لیٹ گیا کہ ’کام ہو جائے گا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جنگیں کسی ہال میں،کسی پارٹی میٹنگ میں یا کسی کاغذ پر ’ڈیزائن‘ نہیں ہوتیں۔

یہ ان آنکھوں میں بنتی ہیں جنہوں  نے بارود کا دھواں سونگھا ہو،ان ہاتھوں میں ترتیب پاتی ہیں جنہوں  نے بندوق کے دہانے پر امید کا پرچم باندھا ہو اور ان دلوں میں پلتی ہیں جنہوں  نے شہداء کے جنازوں کو کندھا دیا ہو۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی تصحیح بظاہر ایک حکومتی وضاحت تھی لیکن حقیقت میں وہ سیاسی حقیقت پسندی کی ایک جھلک تھی،انہوں  نے اگرچہ اپنے بڑے بھائی کی سیاسی خواہشات پر ہلکی سی’ مٹی‘ ڈالی لیکن ریاستی بیانیے کو محفوظ کیا،کیونکہ اگر کل کو فوجی ترجمان آکر یہ کہہ دیتا کہ ’یہ تو سراسر افواہ ہے،فوج  نے از خود یہ فیصلہ کیا تھا‘ تو وہی نعرہ جو عظمیٰ بخاری  نے مچایا تھا، نعرہ مضحکہ بن کر ہر طنز نگار کے قلم کی زینت بن جاتا۔

یاد کیجیے 1999 کا کارگل، ایک ایسا باب جو آج بھی بند نہیں ہوا، اس وقت بھی ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا، فوج  نے خود سے سب کچھ کر لیا، نواز شریف نے اسی بیانیے کو بنیاد بنا کر امریکہ کی راہ لی اور وہاں جا کر ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جسے نہ قوم نے قبول کیا، نہ فوج  نے۔

 کارگل کی لڑائی میں بے شک سپاہی شہید ہوئے مگر سیاسی بیانیے  نے ایک پوری جنگ کو تجرباتی ناکامی بنا دیا۔اب جب دوبارہ جنگی کیفیت کی فضا بن رہی ہے تو پھر سے وہی سیاسی مہرے ایک نیا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔

سیاستدان اکثر فوجی کامیابیوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں،جیسے بچپن میں چھوٹے بھائی کی شرارت پر بڑا بھائی سزا سے بچنے کے لیے کہہ دیتا تھا، ’جی ابا جی، یہ تو میرے کہنے پر کیا تھاحالانکہ چھوٹے نے اپنی مرضی سے ساری شیطانیت کی ہوتی تھی۔

 سیاستدانوں کی یہ روش دراصل ایک اجتماعی نفسیاتی بیماری کا مظہر ہے، جہاں کریڈٹ لینا قومی خدمت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے،’آپریشن بنیان مرصوص‘ کا نام ہی بتاتا ہے کہ یہ کوئی جذباتی رد عمل نہیں تھا، یہ حکمت عملی، ٹارگٹڈ سٹرائیکس، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز اور سفارتی توازن کے نازک دھاگے پر بنا ایک مربوط عمل تھا۔ یہ وہی آپریشن ہے جس کے بعد دشمن کے منہ سے دھواں نکلا اور دنیا بھر میں یہ پیغام گیا کہ پاکستان اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں:پاکستان کا انڈیا کے خلاف آپریشن: اب تک کیا ہوا؟

 کیا یہ سب کچھ مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس میں بیٹھ کر طے پایا؟ یا خواجہ آصف کی شعلہ بیانی میں ڈھلا؟ قطعاً نہیں، اسے ڈیزائن کیا گیاجی ایچ کیو کی راہداریوں میں، جہاں ہر فائل کے ساتھ ایک شہید کی تصویر جڑی ہوتی ہے، جہاں جنگ کو صرف فتح کے پیمانے سے نہیں بلکہ نقصان کم سے کم کے پیمانے سے پرکھا جاتا ہے۔

جہاں دشمن کو سبق سکھانے کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کو بھی سفارتی پیغام دینا مقصود ہوتا ہے،یہ کھیل ان ہاتھوں کا نہیں جو ووٹ لینے کے لیے گلیوں میں وعدوں کی چاکنگ کرتے ہیں بلکہ ان ہاتھوں کا ہے جو بندوق اٹھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام لیتے ہیں ۔

اب آتے ہیں وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی نکتہ چینی پر،ان کی سیاست میں وفاداری کی مثال وہی ہے جو ٹرین کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر کی ہوتی ہے،جہاں کھڑکی سے اچھا منظر آ رہا ہو، وہیں رخ بدل لیتا ہے،محترمہ کبھی آصف زرداری کی آنکھ کا تارا اور مریم نواز میں کیڑے نکالا کرتی تھیں، پھر ن لیگ میں آئیں تو نواز شریف کو جمہوریت کا ہمالیہ قرار دینے لگیں۔

اب وہی ہمالیہ، جنگی نقشے بھی بنانے لگا ہے سچ کہیے تو ان کے بیان میں اتنی ہی سنجیدگی ہے جتنی کچی پکّی جمی ہوئی جلیبیاں بیچنے والے کی آواز میں لیکن ایک پہلو اور بھی ہے جو اس پورے واقعے کو دلچسپ بناتا ہے، وہ ہے شریف خاندان کی بیانیہ سازی کی مسلسل کوشش۔

 کبھی خود کو’ ووٹ کو عزت دو‘ کا علمبردار بنایا، کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر اور اب فوجی آپریشنز کے معمار، گویا ہر روپ میں جلوہ گر ہونے کی وہی خواہش، جو تھیٹر میں بار بار کپڑے بدل کر ناظرین کو متاثر کرنے کی خواہش سے مماثل ہے۔

 مسئلہ مگر یہ ہے کہ قوم اب تماشائی نہیں رہی، وہ جان گئی ہے کہ اصلی اور نقلی میں فرق ہوتا ہے اور نقلی بیانیہ دیر تک نہیں چلتا،اسی ضمن میں اگر ہم پاکستان کی عسکری تاریخ کا مطالعہ کریں تو جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک، ہر دور میں ایک روایت قائم رہی ہے کہ جنگی حکمت عملی کی تیاری سول حکومت کو اعتماد میں لے کر مگر فوجی ادارے خود کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:عام شہریوں اور فوجیوں کی بہادری، قربانیاں پاکستان کی سلامتی کا سنگ بنیاد ہیں: آرمی چیف

 نواز شریف کے تینوں ادوار میں بھی یہی ہوا، چاہے وہ بھارت سے دوستی کے خواہاں رہے ہوں یا جوہری دھماکوں کے وقت دباو کا شکار، اصل فیصلے ان ہی راہداریوں میں ہوتے رہے جہاں وردی پہن کر لوگ خاموشی سے اپنی جان قربان کرنے کی قسم کھاتے ہیں۔

ادھر قوم بھی عجیب دوراہے پر ہے،ایک طرف وہ فوج سے محبت کرتی ہے، دوسری طرف سیاسی بیانیوں کے جال میں پھنسا دی جاتی ہے،اسے سمجھایا جاتا ہے کہ فتح کا سہرا کسی لیڈر کے سر ہے، حالانکہ سچ یہ ہے کہ جس فوجی نے دشمن کے مورچے میں گھس کر اسے نیست و نابود کیا، وہ کبھی ٹی وی پر نہیں آتا، نہ ہی اخبارات کے سرخیوں میں اس کا نام آتا ہے،وہ تو بس خاموشی سے شہید ہو کر قبر میں جا لیٹتا ہے اور پھر کوئی سیاستدان آ کر اس کی قربانی کا کریڈٹ لیتا ہے۔

آخر میں ایک سوال چھوڑنا چاہتا ہوں، کیا تاریخ بھی وہی ہے جو سیاستدان سناتے ہیں یا وہی جو شہداءکے مزاروں پر لکھی ہوتی ہے؟ کیونکہ اگر سیاستدانوں کی بات مان لی جائے تو کل کو شاید عظمیٰ بخاری یہ بھی کہہ دیں کہ 1965 کی جنگ کا نقشہ بھی میاں صاحب  نے ماڈل ٹاون میں بیٹھ کر بنایا تھا اور ائیر فورس کے شاہین دراصل رائیونڈ میں تیار کیے گئے تھے۔

کاش یہ لوگ جانتے کہ وطن کی حفاظت کاغذی فائلوں سے نہیں، شہیدوں کے لہو سے ہوتی ہے اور جنگ کے کریڈٹ کی طلب وہی کرتا ہے جو میدانِ جنگ میں کبھی گیا ہی نہ ہو۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس