امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے چار روزہ دورے نے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندی، دفاعی معاہدوں اور ٹریلین ڈالرز کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکانات کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
یہ دورہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات پر محیط تھا، جسے امریکی و خلیجی ذرائع نے ایک بڑے سفارتی و اقتصادی کھیل سے تعبیر کیا ہے۔ ٹرمپ نے ریاض میں ہونے والے سعودی-امریکا سرمایہ کاری فورم میں اعلان کیا کہ سعودی عرب اگلے چار سالوں میں توانائی، دفاع اور مائننگ کے شعبوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات کی 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور قطر کی خفیہ سرمایہ کاری کو شامل کیا جائے تو مجموعی مالیت 2 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکا اور خلیجی ممالک کے درمیان صرف دفاعی معاہدے 142 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتے ہیں، جن میں ممکنہ طور پر ایف-35 جیٹ طیارے بھی شامل ہیں۔
ٹرمپ نے ریاض میں سعودی وژن 2030 کی حمایت کرتے ہوئے سعودی حکام پر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں 3.5 ارب ڈالر کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دی گئی، جسے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی دفاعی فروخت قرار دیا جا رہا ہے۔
عمان میں پسِ پردہ مذاکرات کے دوران امریکی نمائندوں نے ایرانی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کیں تاکہ ایک نئے نیوکلیئر معاہدے کی بنیاد رکھی جا سکے، جب کہ ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ فوجی آپشن بدستور زیر غور ہے۔
دوحہ میں ایک امریکی یرغمالی کی رہائی پر تقریب بھی منعقد کی گئی، جس کے ساتھ ہی خلیجی رہنماؤں پر حماس کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا۔
ٹرمپ کے اس دورے میں ایلون مسک اور سیم آلٹمین جیسے ٹیکنالوجی ماہرین کی موجودگی نے اس سفارتی مہم کو تیل، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی نئی صف بندی میں بدل دیا ہے۔ برطانوی اخبار ‘دی گارڈین’ کے مطابق اس دورے کو امریکہ کی ‘اسٹریٹجک انویسٹمنٹ ڈپلومیسی’ کی نئی شکل قرار دیا جا رہا ہے۔
علاقائی سطح پر خلیجی ریاستیں تیل کی قیمتوں میں کمی اور کووِڈ کے بعد مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں، جس کے باعث یہ سرمایہ کاری کے وعدے موجودہ معاشی حالات میں مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ٹرمپ نے سعودی نیوکلیئر ڈیل کو اسرائیلی تعلقات سے الگ کرتے ہوئے ریاض کو ایک نئی خودمختاری دی ہے، جو خطے میں طویل المدتی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
یہ دورہ آنے والے دنوں، مہینوں اور ممکنہ طور پر برسوں تک مشرق وسطیٰ کی خارجہ پالیسی، عالمی اتحادوں اور اقتصادی تعلقات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔