Follw Us on:

مودی کی پاکستانی دریاؤں سے ’پانی چوری‘ میں تیزی، سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کیسے کی جارہی ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Indus water treaty
دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں تیزی لانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

انڈیا کی جانب سے دریائے سندھ کے پانی سے متعلق 1960ء کے تاریخی انڈس واٹر معاہدے سے اپنی شرکت معطل کرنے کے بعدانڈین حکومت اب ان دریاؤں سے زیادہ پانی نکالنے کے منصوبوں پر غور کر رہی ہے، جو پاکستان کے زرعی علاقوں کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے متعلقہ حکام کو دریائے چناب، جہلم اور سندھ پر منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں تیزی لانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ یہ تینوں دریا انڈس واٹرز سسٹم کا حصہ ہیں، جن کا استعمال معاہدے کے تحت بنیادی طور پر پاکستان کے لیے مختص ہے۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا میں زیرِ غور اہم منصوبوں میں دریائے چناب پر رانبیر کینال کو دُگنا یعنی 120 کلومیٹر تک وسعت دینا شامل ہے۔ یہ نہر انیسویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور اب اسے یومیہ 150 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی منتقل کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے، جو اس وقت تقریباً 40 مکعب میٹر فی سیکنڈ ہے، یہ منصوبہ کئی برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیرریلوے کی وزیراعلیٰ سے ملاقات: ’مریم نواز نوجوانوں کا ماں کی طرح خیال رکھ رہی ہیں

واضح رہے کہ یہ پیش رفت اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے مہلک حملے کے بعد سامنے آئی، جس کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیااور اسلام آباد نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ آبی وسائل نے اس حوالے سے براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کا معاہدہ معطل کرنا غیرقانونی ہے اور اسلام آباد اب بھی اس معاہدے کو مؤثر تصور کرتا ہے۔

اپریل میں انڈیا کی جانب سے معاہدہ یکطرفہ معطل کیے جانے کے بعد پاکستان نے اسے ‘اعلانِ جنگ’ کے مترادف قرار دیا۔

Indus water treaty
پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ (فوٹو: روئٹرز)

یاد رہے کہ پاکستان کی تقریباً 80 فیصد زراعت اور تمام بڑے پن بجلی منصوبے انڈس واٹر سسٹم پر انحصار کرتے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پن بجلی کے کئی نئے منصوبے تجویز کیے ہیں، جن کے ذریعے مجموعی صلاحیت کو موجودہ 3,360 میگاواٹ سے بڑھا کر 12,000 میگاواٹ تک لے جایا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبے جن میں بڑے ذخائر بنانے والے ڈیم بھی شامل ہیں، انڈس نظام میں پہلی بار انڈیا کی طرف سے ایسے اقدامات ہوں گے جو پانی کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انڈین وزارتِ توانائی کی ایک دستاویز کے مطابق کم از کم پانچ ایسے ممکنہ ڈیمز کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں چار دریائے چناب اور جہلم کی معاون ندیوں پر واقع ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تنازعہ کشمیر پر مرکوز رہا ہے اور حالیہ اقدامات کو بعض ماہرین اسلام آباد پر دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟

دوسری جانب پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو عالمی اداروں جیسے عالمی بینک، جو اس معاہدے کا ضامن ہے اور ہیگ میں قائم عالمی عدالتِ انصاف یا مستقل ثالثی عدالت میں لے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا کہ”پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم کسی ایسے منظرنامے پر غور بھی نہیں کرنا چاہتے جو اس معاہدے کی بحالی کو تسلیم نہ کرے۔”

خیال رہے کہ انڈس واٹرز معاہدہ 1960ء میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا اور اسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے نے کئی جنگوں اور کشیدہ حالات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کو متوازن رکھا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس