Follw Us on:

سستا، کارآمد اور کثیرالمقاصد: جے ایف-17 تھنڈر عالمی منڈی میں اپنی جگہ کیسے بنا رہا ہے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Jf 17 thunder
جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ، پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ (فوٹو: گوگل)

یورپی اور امریکی اسلحہ ساز اداروں کے مقابلے میں پاکستان کا تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ، پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

کیا آئندہ افریقہ، ایشیا یا قفقاز میں کوئی جنگ پاکستان کے بنائے گئے طیارے کے ساتھ لڑی جائے گی؟ یہ سوال اب محض قیاس آرائی نہیں رہا بلکہ ایک سنجیدہ تزویراتی امکان بن چکا ہے۔ نائجیریا، میانمار اور آذربائیجان جیسے ممالک پہلے ہی جے ایف-17 کو اپنے بیڑے میں شامل کر چکے ہیں، جب کہ بنگلہ دیش، مصر، ارجنٹائن اور بولیویا جیسے ممالک اس کی خریداری کے امکانات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

2016 میں نائجیریا نے تین جے ایف-17 طیاروں کا آرڈر دیا، جو مارچ 2021 میں 184.3 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت فراہم کیے گئے۔ ان طیاروں کو انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی کارکردگی توقعات پر پوری اتری تو نائجیریا مزید 40 طیاروں کا آرڈر بھی دے سکتا ہے۔

نجی آئی ٹی کمپنی ‘کوڈنگ فرسٹ’ کے سی ای او محمد سکندر حیات ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ جے ایف-17 کی عالمی مانگ پاکستان کے لیے دفاعی سفارت کاری کو مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خطے میں انڈیا یا دیگر حریف ممالک کے خدشات کو بڑھا کر کشیدگی میں اضافہ بھی کر سکتا ہے، اس لیے توازن اور احتیاط ضروری ہے۔

Jf 17 thunder iv
جے ایف-17 ایک کم لاگت، آسانی سے قابلِ استعمال اور مؤثر جنگی پلیٹ فارم ہے۔ (فوٹو: گوگل)

پاکستانی فضائیہ کے انسٹرکٹرز کے ساتھ نائجیریا کے پائلٹ اور ٹیکنیشنز کی مشترکہ تربیت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جے ایف-17 ایک کم لاگت، آسانی سے قابلِ استعمال اور مؤثر جنگی پلیٹ فارم ہے۔

میانمار نے جولائی 2015 میں 560 ملین ڈالر میں 16 جے ایف-17 بلاک-2 طیاروں کا آرڈر دیا۔ پہلا بیچ 2018 کے آخر میں میانمار پہنچا۔ اگرچہ حالیہ رپورٹس میں تکنیکی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم میانمار اب بھی اس طیارے کی کم لاگت اور کثیر المقاصد صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

ستمبر 2024 میں آذربائیجان نے 1.6 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت 14 جے ایف-17 بلاک-3 طیارے، تربیت اور سپورٹ سسٹمز کے ساتھ حاصل کیے۔ قفقاز کے اس متنازعہ خطے میں یہ معاہدہ جے ایف-17 کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟

جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کا ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد اسلام آباد پہنچا۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش 32 جے ایف-17 طیارے خریدنے پر غور کر رہا ہے تاکہ اپنی فضائیہ کو جدید بنایا جا سکے۔ اس پیش رفت نے دہلی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کا چین اور پاکستان کی طرف اسٹریٹیجک جھکاؤ ظاہر ہوتا ہے۔

سکندر حیات کا کہنا ہے کہ جے ایف-17 کی کامیابی بنیادی طور پر اس کی کم قیمت، آسان دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پیشکش پر مبنی ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پرکشش ہے۔ تاہم، F-16، رافال اور گرِپن جیسے مغربی طیارے اب بھی ٹیکنالوجی، رینج اور سینسرز کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں۔ جے ایف-17 ایک متبادل ضرور ہے، مگر ابھی اسے مکمل طور پر مغربی طیاروں کا ہم پلہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Jf 17 thunder ii
جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کا ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد اسلام آباد پہنچا۔ (فوٹو: گوگل)

مقامی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور لوکل اسمبلنگ کی شقیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جو بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔

ارجنٹائن ایک عرصے سے اپنے پرانے میرَاج طیاروں کی جگہ نئے لڑاکا طیاروں کی تلاش میں ہے۔ جے ایف-17 بلاک-3، انڈین تیجس Mk-2 اور استعمال شدہ F-16s اس کی فہرست میں شامل تھے۔ بالآخر ارجنٹائن نے ڈنمارک سے F-16s حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جے ایف-17 اب بھی مستقبل کے اپ گریڈ پلانز میں ایک اہم امیدوار ہے۔

2015 میں مصر کے عسکری وفود نے پاکستان کی جے ایف-17 پیداواری لائنوں کا دورہ کیا۔ قیمت کے اعتبار سے یہ طیارہ مصر کے لیے موزوں تھا، مگر بجٹ اور جیوپالیٹیکل وجوہات کی وجہ سے معاہدہ التواء کا شکار رہا۔

بولیویا بھی بلاک-3 طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اپنے پہاڑی اور جنگلاتی علاقوں کی فضائی نگرانی مؤثر انداز میں کر سکے۔ تاہم ابھی تک مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان

عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش، ارجنٹائن یا بولیویا جیسے ممالک کے ساتھ جے ایف-17 کے معاہدے پاکستان کی دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافہ لا سکتے ہیں؟

اس حوالے سے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں! اگر یہ معاہدے حتمی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش جیسے قریبی اور اہم ملک کے ساتھ معاہدہ نہ صرف مالی فوائد دے گا بلکہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔ طویل مدتی پائیداری کا انحصار معیار، بعد از فروخت سروس اور جیوپولیٹیکل حالات پر ہوگا۔

Jf 17 thunder v
عراق اور میکسیکو جیسے ممالک بھی غیر رسمی طور پر جے ایف-17 میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

پیرو نے بھی خطے میں سویڈن کے گرِپن طیاروں کی فروخت کے بعد جے ایف-17 کو ایک متبادل کے طور پر زیر غور لایا۔ عراق اور میکسیکو جیسے ممالک بھی غیر رسمی طور پر جے ایف-17 میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے مسابقتی پیشکشیں صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہیں۔

جہاں مغربی 4.5 جنریشن طیارے 80 سے 100 ملین ڈالر فی یونٹ کی لاگت رکھتے ہیں، وہیں جے ایف-17 کی قیمت 25 سے 30 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ اس کے کم ایندھن خرچ، سادہ الیکٹرانکس اور مقامی مرمت کے قابل ڈیزائن کی وجہ سے اس کے آپریشنل اخراجات 30 سے 40 فیصد کم ہیں۔

یہ طیارہ فضائی لڑائی، زمینی حملے، اینٹی شپ مشن، ریکانیسنس اور دیگر کئی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک اسے ایک “jack-of-all-trades” پلیٹ فارم سمجھتے ہیں جو ان کی دفاعی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں: انڈین ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا پاکستان کے لیے حساس معلومات شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار

پاکستان اور چین دونوں ہی جے ایف-17 کی فروخت کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر، اسمبلنگ لائنز، تربیتی سمیولیٹرز اور پائلٹ ٹریننگ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ان ممالک کے لیے پرکشش پیشکش ہے، جو اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ یہ پیشکش بیک وقت ایک تزویراتی فائدہ بھی ہے اور ایک محتاط خطرہ بھی، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور لوکل اسمبلی سے پاکستان کو دفاعی شراکت داری گہری کرنے، سافٹ پاور بڑھانے اور طویل المدتی سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس سے ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ، رازوں کے افشا ہونے اور معیار کے فقدان جیسے خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر شراکت دار ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہو۔ اس لیے ہر معاہدے کو قومی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے سخت شرائط کے ساتھ تشکیل دینا ضروری ہے۔

Jf 17 thunder iii
جے ایف-17 کی خریداری دراصل پاکستان اور چین کے ساتھ تزویراتی اتحاد کا اظہار بھی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

جے ایف-17 کی خریداری دراصل پاکستان اور چین کے ساتھ تزویراتی اتحاد کا اظہار بھی ہے۔ یہ ان ممالک کے لیے موزوں ہے، جو مغربی پابندیوں سے بچنا چاہتے ہیں یا دفاعی طور پر زیادہ خودمختاری کے خواہاں ہیں۔

جے ایف-17 کو مغربی طیاروں جیسے F-16V، گرِپن، رافیل، انڈین تیجس اور جنوبی کوریا کے FA-50 کے ساتھ مسابقت کا سامنا ہے۔ اگرچہ قیمت کے لحاظ سے یہ برتری رکھتا ہے، مگر کچھ ممالک ابھی تک معیار کے حوالے سے سوالات رکھتے ہیں۔

نائجیریا کی کامیاب تعیناتی یا میانمار کے مسائل جے ایف-17 کی ساکھ پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہر ملک میں اس کی کارکردگی دراصل ایک زندہ مظاہرہ بن جاتی ہے، جس کا اثر اگلے سودوں پر ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: ہم پاکستان اور انڈیا پرزور دیں گے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کریں، برطانوی وزیرخارجہ 

پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC) اور چینگدو ایوی ایشن کارپوریشن (CAC) دنیا بھر میں عسکری نمائشوں جیسے IDEAS، Aero India اور Eurostar میں جے ایف-17 کو پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان ان مواقع کو سیاسی حمایت سے بھی تقویت دیتا ہے تاکہ کسی مغربی دباؤ سے پہلے سودے طے کیے جا سکیں۔

بنگلہ دیش کی جانب سے 32 طیاروں کا مجوزہ سودا اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لاطینی امریکہ میں اگر بجٹ یا سیاست نے کروٹ بدلی تو ارجنٹائن یا بولیویا دوبارہ جے ایف-17 کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اگر امریکی طیاروں کی قیمتیں مزید بڑھیں تو خلیجی ریاستیں بھی اس طیارے پر غور کر سکتی ہیں۔

ایک بات طے ہےکہ اگلا معاہدہ، پالیسی اعلان یا فلائٹ مظاہرہ جے ایف-17 کو اس دور کا سب سے نمایاں برآمدی لڑاکا طیارہ ثابت کر سکتا ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس