ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر بڑھتی کشیدگی نے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اگر مذاکرات ناکام ہو جائیں تو ایران کی مذہبی قیادت کے پاس کوئی واضح متبادل منصوبہ (پلان بی) موجود نہیں۔
ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر بات چیت ناکامی سے دوچار ہوئی تو ایران ممکنہ طور پر چین اور روس کی جانب رجوع کرے گا مگر موجودہ عالمی حالات اس آپشن کو غیر یقینی بناتے ہیں۔
چین تجارتی جنگ میں الجھا ہوا ہے جبکہ روس یوکرین جنگ میں مصروف ہے جس سے ایران کی امیدیں کمزور پڑ رہی ہیں۔
ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ “پلان بی وہی حکمت عملی ہے جو مذاکرات سے پہلے اپنائی گئی تھی، یعنی کشیدگی سے بچنا اور دفاع کیلئے تیار رہنا، ساتھ ہی روس و چین سے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا۔”
دوسری جانب سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حالیہ بیان میں امریکا کے مطالبات کو “غیر معقول اور ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید
ایران نہ صرف اپنا افزودہ یورینیم بیرون ملک بھیجنے سے انکار کر رہا ہے بلکہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھی کوئی بات چیت کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف امریکا فوری طور پر تمام پابندیاں ہٹانے کے بجائے تدریجی نرمی چاہتا ہے جسے تہران مسترد کر رہا ہے۔
سابق امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن، جو 2015 کے معاہدے کی مذاکرات کار تھیں، انکا کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری افزودگی سے مکمل دستبردار کرانا “ناممکن” ہے۔
ان کے مطابق “یہ صورتحال ایک بند گلی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا انجام ممکنہ جنگ ہو سکتا ہے، اگرچہ صدر ٹرمپ جنگ کو آخری آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
اس کے علاوہ توانائی اور پانی کی قلت، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، علاقائی اتحادیوں میں فوجی نقصان اور اسرائیل کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کا خوف، یہ سب ایران کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ضرور پڑھیں: اسرائیلی بمباری سے غزہ میں بچوں اور خواتین سمیت مزید73 فلسطینی شہید
رائٹرز کے ذرائع کے مطابق ایران کی قیادت اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی نیا معاہدہ نہ ہوا تو اقتصادی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے جو حکومت کیلئے سنگین خطرہ بن جائے گا۔
حالیہ برسوں میں مہنگائی، غربت اور جبر کے خلاف عوامی مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں۔
اگرچہ ایران اب بھی چین کو تیل فروخت کر کے اپنی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چین امریکی پابندیوں کے باعث محتاط رویہ اختیار کر رہا ہے۔
چین کو ایرانی تیل کے بدلے بھاری رعایتیں درکار ہیں اور عالمی منڈی میں مانگ کم ہونے سے ایران کی آمدنی مزید دباؤ میں ہے۔
مزید برآں، فرانس، برطانیہ اور جرمنی جو کہ براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں لیکن واضح کر چکے ہیں کہ اگر معاہدہ جلد طے نہ پایا تو وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت دوبارہ پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
ان ممالک کے پاس اکتوبر سے پہلے “اسنیپ بیک میکانزم” فعال کرنے کا اختیار ہے اور سفارتی ذرائع کے مطابق وہ اگست میں یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔