کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے کارکن محمود خلیل نے اپنی گرفتاری کے بعد پہلی بار اپنے نومولود بیٹے سے ملاقات کی۔
ان کے وکلا کے مطابق یہ ملاقات جمعرات کو اس وقت ممکن ہوئی جب ایک جج نے خلیل کو اپنی بیوی اور بچے سے ملنے کی اجازت دی۔ خلیل کے بیٹے کی پیدائش اسی وقت ہوئی تھی جب وہ مارچ میں امریکی امیگریشن حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔
محمود خلیل نے امریکا کی امیگریشن عدالت میں پیشی سے پہلے اپنی اہلیہ ڈاکٹر نور عبداللہ اور اپنے بیٹے دین سے ملاقات کی۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ خلیل کے لیے اپنے بیٹے کو پہلی بار گود میں لینا اور اپنی بیوی سے بات کرنا ایک جذباتی لمحہ تھا، لیکن انہوں نے اس ملاقات کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں تاکہ ان کے نجی لمحات کی حفاظت کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کردیا
خلیل غزہ پر اسرائیلی فوجی حملوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی تحریک کے نمایاں رہنما ہیں۔ ان کی گرفتاری نے امریکا میں اظہارِ رائے کی آزادی، سیاسی مخالفت، اور امیگریشن قوانین کے استعمال پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ محمود خلیل کی موجودگی ملک کے خارجہ پالیسی مفادات کے خلاف ہے، جس وجہ سے اس کا گرین کارڈ ایک خاص قانون کے تحت منسوخ کر دیا گیا۔ یہ قانون وزیرِ خارجہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کو ملک بدر کرا سکتا ہے اگر اس کی موجودگی قومی مفاد کے خلاف ہو۔
محمود خلیل، جن کی عمر 30 سال ہے، شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2022 میں اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکا آئے۔ انہوں نے ایک امریکی شہری سے شادی کی اور 2023 میں قانونی طور پر امریکا کے مستقل رہائشی بن گئے۔
اس دوران، ایک علیحدہ عدالتی کارروائی میں ایک وفاقی جج نے خلیل کی ملک بدری کو روک دیا ہے، کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ امیگریشن عدالت کا جج محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کے حق میں فیصلہ دیتا ہے یا نہیں، لیکن جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا، خلیل کو ملک سے نہیں نکالا جا سکتا۔
یہ کیس امریکہ میں فلسطینی حامی مظاہرین اور طلبہ کے ساتھ حکومتی سلوک پر جاری بحث کا اہم حصہ بن چکا ہے۔