سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر فوزیہ ارشد نے پانی چوری کے معاملے کو اُٹھاتے ہوئے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں یومیہ پانی کی طلب 240 ملین گیلن ہے، مگر فراہمی صرف 120 ملین گیلن تک محدود ہے۔
اس میں سے بھی تقریباً 40 فیصد، یعنی 50 ملین گیلن پانی چوری ہو جاتا ہے، جس کے بعد صرف 70 ملین گیلن پانی شہریوں تک پہنچ پاتا ہے۔
سینیٹر فوزیہ ارشد کے مطابق سملی ڈیم، خان پور ڈیم اور ٹیوب ویلز سے جو پانی حاصل ہوتا ہے، وہ شہریوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیویوں کا شوہروں سے مقابلہ طلاق کی بڑی وجہ ہے، صبا فیصل
انہوں نے خاص طور پر اسلام آباد کے ریڈ زون سے منسلک سیکٹر جی سکس فور کی نشاندہی کی، جہاں برسوں سے پانی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے مکینوں کو مہنگے داموں ٹینکر مافیا سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔
انہوں نے عیدالاضحی کے قریب آنے اور پانی کی ممکنہ بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں فوری اقدامات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سی ڈی اے کو ہدایت کی جائے کہ وہ مسئلے کے فوری حل کے لیے متحرک ہو۔
اجلاس کی صدارت کرنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے معاملے کی حساسیت کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت دی کہ اس مسئلے کو سینیٹ کی داخلہ امور کمیٹی کو بھیجا جائے، جہاں سینیٹر فوزیہ ارشد ذاتی طور پر پیش ہو کر اس کیس کا دفاع کریں گی۔