Follw Us on:

 پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم بھوکے مر سکتے ہیں، سینیٹر سید علی ظفر

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Syed ali zafar

سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا ہے کہ پانی کا مسئلہ کسی ایک حکومت، سیاسی جماعت یا صوبے کا نہیں بلکہ پوری قوم اور ریاست کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کے وجود، بقاء اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔

انہوں اس بات پر زور دیا کہ جیسے دہشت گردی کے مسئلے پر ہم سب یکجا ہوئے، اسی طرح پانی کے مسئلے پر بھی سب کو متحد ہونا ہوگا کیونکہ یہ معاملہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ دہشت گردی۔

سینیٹر نے قائداعظم محمد علی جناح کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ کوئی قوم منظم، متحد اور اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ بدقسمتی سے پاکستان آج پانی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔

پاکستان کو واٹر اسٹریسڈ ملک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم واٹر اسکیئرسٹی ملک بننے کے قریب ہیں، یعنی ایک ایسا ملک جہاں پانی کی قلت اس حد تک ہو جائے گی کہ انسانی زندگی، زراعت اور معیشت خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ 1951 میں فی کس پانی کی دستیابی 5,650 کیوبک میٹر تھی، جو 2017 تک 908 کیوبک میٹر پر آ چکی ہے اور آج اس سے بھی کم ہو چکی ہے۔

ہم پر پہلے ہی پانی کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پانی کا مسئلہ اب حل نہیں کریں گے تو ہم بھوکے مر سکتے ہیں۔ 10 میں سے 9 لوگ انڈس واٹر پر انحصار کر رہے ہیں۔ 90 فیصد فصلیں انڈس واٹر پر ہی انحصار کرتی ہیں۔

Syed ali zafar 1

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک لو رپیئرنگ ملک ہے جب کہ انڈیا اپر رپیئرنگ ملک ہے۔ عالمی قانون کے مطابق لو رپیئرنگ ملک کے لیے پانی ایک بنیادی حقوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالمی قوانین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی ملک لو رپیئرنگ ملک کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اگر انڈیا یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عالمی قانون کے مطابق ہم ہر طرح سے اپنے آبی ذخائر کو بچانے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے ہم اپنی فوج اور میزائلوں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں

انہوں نے عالمی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ طاس معاہدے میں ایسی شق ہی نہیں ہے جس سے یہ معاہدہ معطل کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کی بڑی وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی، ناقص آبی پالیسی، موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور پانی کے ضیاع کا نظام شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا 90 فیصد انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے، جس کے بغیر ہماری زراعت، انرجی، خوراک، لائیو اسٹاک اور پینے کا پانی سب متاثر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  فوجی ترجمان کی سیکرٹری داخلہ کے ہمراہ پریس کانفرنس: ’ انڈیا پاکستان میں ’گذشتہ 20 سال سے دہشت گردی سپانسر‘ کر رہا ہے‘

انہوں نے انڈیا کے رویے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ انڈیا نہ صرف پاکستان کے حصے کا پانی روک رہا ہے بلکہ وہ اس پانی کو بطور ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا نے انڈس واٹر ٹریٹی کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے کئی ڈیمز تعمیر کیے۔ انہوں نے انڈس واٹر ٹریٹی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 1960 کے اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، راوی اور بیاس) انڈیا کو اور تین مغربی دریا (سندھ، جہلم اور چناب) پاکستان کو دیے گئے تھے، اور انڈیا کو مغربی دریاؤں پر صرف مخصوص حالات میں محدود استعمال کی اجازت تھی۔

Syed ali zafar 2

انہوں نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزی اقوام متحدہ کے بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں پانی کو انسانی بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کی قرارداد 64/292 کا حوالہ دیا، جس میں پانی اور صفائی کو انسانی حقوق تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کا پانی روکتا ہے تو یہ اس ملک کی زندگی، صحت، اور معیشت پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو نہ صرف سفارتی اور قانونی سطح پر انڈیا کے خلاف اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکا تو یہ جنگ کے مترادف ہوگا اور پاکستان کے پاس اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنا دفاع کرنے کا مکمل حق موجود ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت اگر کسی ملک پر مسلح حملہ ہو تو وہ اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے، اور پانی کی مکمل بندش بھی ایک معاشی اور ماحولیاتی حملہ تصور کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ انڈیا پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جو کہ عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ انڈیا نے نہ صرف معاہدہ توڑا بلکہ پاکستان کے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے حکومت کو تنبیہ کی کہ ایسے نازک معاملات پر وزراء یا نمائندے غیر سنجیدہ یا متضاد بیانات سے گریز کریں کیونکہ انڈیا ان بیانات کو پاکستان کے خلاف عالمی عدالتوں میں استعمال کر سکتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں پانی کی موثر پالیسی، ذخیرہ کرنے کے منصوبے، ڈیموں کی فوری تعمیر، عوام میں پانی کے درست استعمال کی آگاہی، اور صوبوں کے درمیان مساوی تقسیم پر سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم پانی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر لیں اور سیاست سے بالاتر ہو کر متحد ہو جائیں کیونکہ اگر ہم آج نہ سنبھلے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس