اس کشیدگی نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے اور وہ یہ کہ اگر جنوبی ایشیائی تصادم زمین یا فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی تاریکی میں ہوتا ہے تو اس کا منظرنامہ کیسا ہوگا؟ ایک طرف پاکستان کی تجربہ کار آگوسٹا-90 بی تو دوسری طرف انڈیا کی جدید اور ایٹمی طاقت سے لیس آبدوز آئی این ایس آریہنت کون فیصلہ کن ثابت ہوگا؟
فرانسیسی ساختہ آگوسٹا-90 بی ایک ڈیزل-الیکٹرک آبدوز ہے، جو کئی دہائیوں سے پاکستانی بحریہ کا حصہ ہے۔ اگرچہ اس میں جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی کمی ہے لیکن اس کی مہارت، پانیوں کی واقفیت اور مشن کا تجربہ اسے طاقت ور ثابت کرتا ہے۔
پاکستان نیوی کی یہ آبدوز بھاری بھرکم تارپیڈوز اور سب-ہارپون میزائلوں سے لیس ہے، جو کسی بھی بحری بیڑے کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دوسری جانب انڈیا کی ایٹمی آبدوز آریہنت کی طاقت بھی منفرد ہے۔ یہ ایٹمی ری ایکٹر سے چلنے والی آبدوز مہینوں تک سطح کے قریب آئے بغیر سمندر میں گشت کر سکتی ہے۔
انڈیا کی اس ایٹمی آبدوز میں نصب کے-15 ایٹمی میزائل اسے ہندوستان کے دوسرے حملے کی صلاحیت کا ستون بناتے ہیں۔ اگر زمین پر ہر چیز ختم بھی ہو جائے تو آریہنت زیرِآب سے جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ماہرِعالمی امور منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر حسن فاروق مشوانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “Agosta 90B کی کامیابی تجربے اور ماحولیاتی واقفیت پر منحصر ہے، اگرچہ انڈین آریہنت بھی جدید ہے مگر پاکستان کی تربیت یافتہ کریو اور بہتر علاقائی فہم زیرِآب برتری دلا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “جنگ کی صورت میں آبدوزوں کی حرکات مشکل حالات پیدا کرسکتی ہیں اور ایک غلط فیصلہ خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایسے کسی تصادم سے گریز ہی عقلمندی ہے۔”
مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
اگر پاکستان اور انڈیا کہ درمیان بحری جنگ ہوتی ہے تو خلیج کے دہانے پر واقع تنگ گزرگاہیں اور گجرات کے ساحلوں سے لے کر کراچی کی بندرگاہ کے آس پاس کی گہرائیاں اس جنگ کا میدان ہوں گی۔
ان آبدوزوں کا ایک غلط قدم نہ صرف ان کی اپنی بقا بلکہ پورے خطے کے استحکام کو داؤ پر لگا سکتا ہے کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں، جہاں سے تیل کی اہم سپلائی گزر کر آتی ہے۔

پاکستانی ایٹمی آبدوز آگوسٹا کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی پی-3 سی اورین طیاروں سے مربوط ہو کر دشمن کا سراغ لگا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ انڈین آریہنت پر نگاہ رکھنے کے لیے فضا سے مدد لی جا سکتی ہے، جب کہ انڈیا کی خلائی نگرانی اس کے رد عمل میں معاون ہو سکتی ہے لیکن ایٹمی آبدوز جب خاموشی سے گشت پر ہو تو یہ تمام طریقے ناکام ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نواب سجاد علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “آبدوز جنگ کا مطلب ہے غیر یقینی تباہی، خاص کر جب بات ایٹمی ہتھیاروں کی ہو۔ اس صورتحال میں احتیاط، معاہدوں اور سفارت کاری ناگزیر ہیں تاکہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر تصادم نہ ہو جائے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ” ایسے ہتھیاروں کا آمنے سامنے آنا صرف فوجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور انسانی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔”
یہ بھی پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: ‘سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے’
واضح رہے کہ اب اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا؟ مگر ایک بات تو طے ہے کہ زیرِآب جنگی برتری کا مطلب ہے کہ خلیج سے ایندھن کی سپلائی کو روکنا، دشمن کی تجارتی راہوں کو کاٹنا اور دفاعی بندرگاہوں کو غیر فعال کرنا۔ یہی وہ عناصر ہیں، جو کسی بھی جنگ کو چند گھنٹوں میں فیصلہ کن مرحلے تک لے جا سکتے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آریہنت جیسے پلیٹ فارم پر موجود ایٹمی ہتھیار صرف دفاع کا ذریعہ نہیں بلکہ ممکنہ تباہی کی ضمانت بھی ہیں۔
اگر جنگ کی صورت میں یہ ہتھیار استعمال ہوتے ہیں تو نہ صرف خطے کا نقشہ بدل سکتا ہے بلکہ عالمی امن پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
لازمی پڑھیں: پاکستان-انڈیا کشیدگی: کیا دفاعی بجٹ میں اضافہ معاشی ترقی کو روک دے گا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تناؤ اپنی آخری حد کو پہنچ جائے گا، تو کیا آگوسٹا کی ٹیوبیں پہلے کھلیں گی یا آریہنت کی سائلنٹ کمانڈز پہلے حرکت میں آئیں گی؟
اب اس سوال کا جواب تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات تو طے ہے کہ مستقبل قریب یا پھر بعید میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی چھوٹی سی جھڑپ بھی جنوبی ایشیاء کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور بڑی ایٹمی طباہی کا سبب بن سکتی ہے۔