ہماری زندگیوں میں کتنے دن آتے ہیں اور کتنے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو دل و روح پر ایک ان مٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ عشرہ ذوالحجہ کے یہ دس دن بھی ایسے ہی دن ہیں، رب کے قرب کے دس سنہرے مواقع، بندگی کی معراج کے دس لمحے اور تبدیلی کی سب سے بہترین امید کے دس قیمتی خزانے۔
سوچنے کی بات ہے… کیا یہ دس دن ہماری زندگی کے باقی دنوں کی طرح خاموشی سے گزر جائیں؟ یا ہم انہیں اپنی ذات میں تبدیلی کے لیے استعمال کریں؟ یہ وہی دن ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“اللہ کے ہاں ان دس دنوں کے عمل سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں۔”(صحیح بخاری)
یہ وہ لمحے ہیں جب اللہ خود اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، جب قربانی کا ہر قطرہ ہمارے جذبے کی گواہی بنتا ہے، اور جب بندگی کی خوشبو آسمانوں تک جا پہنچتی ہے۔ یہ تبدیلی کا وقت ہے۔
آئیے سوچیں: اگر دل میں کینہ ہے، تو ان دس دنوں میں معاف کر کے دل کو آزاد کیوں نہ کریں؟ظاہری بھی، باطنی بھی۔
اگر زبان کڑوی ہو چکی ہے، تو ان لمحوں میں نرمی کی مٹھاس کیوں نہ شامل کریں؟
اگر روح غفلت سے گرد آلود ہے، تو توبہ کی بارش سے دھو کیوں نہ ڈالیں؟
اگر رب کو بھلا بیٹھے ہیں، تو لوٹ کر اس کے در پر کیوں نہ آ جائیں؟
یہ عشرہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی انا، اپنی خودغرضی، اپنے غرور کو ذبح کرنے کا نام بھی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہمیں سکھاتی ہے کہ تبدیلی تب آتی ہے جب بندہ رب کے حکم کے آگے خود کو بے اختیار کر دے، جب وہ صرف “میں” سے نکل کر “تو” کہنے لگے۔
آج ہمیں بھی اپنے اندر کے اس اسماعیل کو ڈھونڈنا ہے جسے قربان کرنا ہو،کبھی وہ ہمارا وقت ہوتا ہے، کبھی ہمارا نفس، کبھی ہماری خواہشیں اور جب ہم رب کی رضا کے لیے ان قربانیوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تب ہی اصل تبدیلی ہمارے اندر جنم لیتی ہے۔
عشرہ ذوالحجہ، یہ فقط دن نہیں، یہ زندگی بدلنے کا آغاز ہیں۔ یہ وہ دستک ہے جو دل کے دروازے پر رب کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس دروازے کو کھولیں یا پھر بند ہی رہنے دیں۔
آئیے! ان دس دنوں کو ایسا آغاز بنائیں، جو باقی زندگی کو رب کی رضا سے جوڑ دے۔ یہی وقت ہے۔۔۔یہی لمحہ ہے… تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھانے کا۔