امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں “پاگل” قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر روس نے پورے یوکرین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو یہ خود روس کے لیے زوال کا باعث بنے گا۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ اگرچہ ان کے پیوٹن سے خوشگوار تعلقات رہے ہیں، لیکن اب وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ پیوٹن کو کیا ہو گیا ہے، کیونکہ وہ بے گناہ لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے روس کی جانب سے یوکرینی شہروں پر میزائل اور ڈرون حملوں کو بلاوجہ تشدد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات روس کے لیے خود نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟
ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ان کے اندازِ گفتگو سے بھی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے زیلنسکی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیانات میں احتیاط برتیں، کیونکہ ان کے الفاظ معاملات کو بگاڑ رہے ہیں۔
یہ تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب روس نے حالیہ دنوں میں یوکرین پر شدید ڈرون حملے کیے، جن میں اب تک کم از کم 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔

علاوہ ازیں اتوار کو نیو جرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی ٹیرف پالیسی کا مقصد مقامی سطح پر ٹینکوں کی تیاری کو بڑھانا ہے نہ کہ سنیکرز اور ٹی شرٹس کو۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو اب بڑی چیزیں بنانی ہیں، جیسے ٹینک، بحری جہاز، چپس اور کمپیوٹرز، کیونکہ یہی جدید معیشت کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ کپڑوں کی صنعت پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ کام دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کو ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت میں خود کفیل ہونا چاہیے۔
ٹرمپ کی یہ پالیسی پہلی بار ان کے صدر بننے کے بعد سامنے آئی تھی، جب انہوں نے چین سمیت دنیا کے کئی ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری محصولات لگائے تھے۔ اس اقدام کے بعد کئی ملکوں نے امریکا کی مصنوعات پر بھی جوابی ٹیرف عائد کر دیے، جس سے عالمی تجارت میں بے یقینی پیدا ہوئی۔
حال ہی میں ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم جون سے یورپی یونین میں تیار ہونے والی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف لگا سکتے ہیں، جبکہ ایپل کو خبردار کیا ہے کہ امریکا سے باہر بننے والے آئی فونز پر بھی 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو ایک تجارتی جنگ کا نام دے رہے ہیں، جس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جبکہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی مذاکرات بھی تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔