Follw Us on:

پاکستان، انڈیا جنگ کے بعد مغرب چین سے خوفزدہ ہونے لگا ہے؟

ڈاکٹر اسامہ شفیق
ڈاکٹر اسامہ شفیق
Osama shafiq

چینی صدرشی جن پنگ امریکی فوجی بالادستی کو کمزور کر رہے ہیں، چین کی افواج میں تیزی سے توسیع پر خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ ملک امریکہ کے لیے وجودی خطرہ بن سکتا ہے۔ 
چین نے نہایت جارحانہ انداز میں ایک بڑی فوج تشکیل دی ہے جس کا مقصد ہماری طاقتوں کو زائل کرنا ہے۔

جب پاکستان کے ایک چینی ساختہ جنگی طیارے نے کشمیر کے پہاڑوں کے اوپر ایک میزائل داغا اور انڈیا کے فرانسیسی ساختہ رافال لڑاکا طیارے کو مار گرایا، تو مغربی حکام چونک گئے۔

یہ پہلا موقع تھا جب مغرب نے چینی JC-10 طیارے اور PL-15 میزائل کو عملی جنگ میں استعمال ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد مغربی ماہرین نے اس جھڑپ کی تفصیلات کا بغور جائزہ لیا کہ آیا چین کی عسکری صلاحیتیں مغرب کے برابر آچکی ہیں یا نہیں۔

گزشتہ 25 برسوں میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) ایک چھوٹی اور زرعی آمدنی پر انحصار کرنے والی فوج سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور افواج میں تبدیل ہو چکی ہے۔

امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل ڈگ وکرٹ کے مطابق: ’’چین آج تک کے سب سے زیادہ طاقتور مقام پر ہے۔ اس نے خاصی جارحیت کے ساتھ ایک بہت بڑی فورس بنائی ہے جس کا مقصد ہمارے دفاعی نظام کو چیلنج کرنا ہے۔‘‘

آج PLA کے پاس امریکہ سے تقریباً دس لاکھ زیادہ سپاہی اور ایک ہزار سے زائد اضافی ٹینک ہیں۔ اس کی بحریہ دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بن چکی ہے، جس میں تقریباً 400 جنگی جہاز شامل ہیں، اور فضائیہ میں تقریباً 2,000 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔

بیجنگ نے اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ سی آئی اے کے نائب ڈائریکٹر مائیکل ایلس کے مطابق چین اب ایسا وجودی خطرہ بن چکا ہے جس کا امریکہ نے ماضی میں کبھی سامنا نہیں کیا۔

تاہم، اگرچہ چین آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے، لیکن اس کی اصل صلاحیتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ PLA ابھی بھی مہارت اور تجربے میں پیچھے ہے اور اکثر اپنے حریف سے ایک قدم پیچھے رہتی ہے۔

جنرل وکرٹ کے مطابق: ’’اعداد و شمار پوری کہانی نہیں بتاتے۔ چین کی فوج تعداد اور تکنیکی ترقی دونوں میں بڑھی ہے، لیکن بعض شعبوں میں ہم اب بھی ٹیکنالوجی میں برتری رکھتے ہیں۔‘‘

ہر سال چین میں مختلف نمائشیں اور دفاعی شوز ہوتے ہیں، جن میں دنیا کی سب سے خفیہ افواج میں سے ایک کی ٹیکنالوجی پیش کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا سفارتی محاذ پر، کیا نتائج آ سکتے ہیں؟

نومبر میں، چین نے ژوہائی ایئر شو میں J-20 اسٹیلتھ فائٹر طیارے پیش کیے، جو امریکہ کے F-35 لائٹننگ II طیاروں کے حریف سمجھے جاتے ہیں، اور جو PL-15 جیسے میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حال ہی میں، ورلڈ ریڈار ایکسپو میں چین نے نیا JY-27V ریڈار پیش کیا، جسے چینی ریاستی میڈیا نے F-35 جیسے پانچویں نسل کے امریکی اسٹیلتھ طیاروں کا سراغ لگانے کی صلاحیت والا قرار دیا۔

چین کی بحریہ بھی مبینہ طور پر ایک نیا سپر کیریئر تیار کر رہی ہے، جو USS Gerald Ford جیسا ہوگا۔ جبکہ فوج ایک نئی چوتھی نسل کے ہلکے ٹینک پر کام کر رہی ہے، جس کے توپ خانے مختلف قسم کے گولے داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تاہم، امریکا کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک پہلو چین کی جوہری طاقت میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ 2023 سے 2024 کے درمیان چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 500 سے بڑھا کر 600 کر دی، اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1,000 سے تجاوز کر جائے گی۔

اگرچہ امریکہ کے پاس اب بھی 3,700 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ برتری حاصل ہے، لیکن بیجنگ کی رفتار نے واشنگٹن کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

رینڈ کارپوریشن کے دفاعی محقق اور چین کے ماہر، ٹموتھی ہیتھ کے مطابق: چین کی یہ پیش رفت دراصل ایک “روک تھام کی حکمت عملی” کا حصہ ہے۔ ان کے بقول: ’’یہ اس بات کی علامت ہے کہ چین امریکہ سے روایتی جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔‘‘

ہیتھ کے مطابق ہائپرسونک میزائل کا میدان ایک ایسا شعبہ ہو سکتا ہے جہاں چین نے تکنیکی لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ چین فوجی ڈرونز کے عالمی بازار میں بھی نمایاں کھلاڑی بن چکا ہے، حالانکہ جنرل وکرٹ جیسے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ چین کسی بھی شعبے میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔

چینی فوجی ترقیات تائیوان کے ممکنہ تنازع کے تناظر میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہیں، کیونکہ یہ وہ واحد منظرنامہ ہے جہاں امریکہ اور چین آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔

جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔

ہیتھ کے مطابق چین کی تائیوان کے قریب موجودگی اسے برتری دیتی ہے، کیونکہ بیجنگ کو اپنے زمینی نظام تک فوری رسائی حاصل ہوگی، جب کہ امریکہ کو سمندر پار سے اپنی طاقت پہنچانی پڑے گی۔

واشنگٹن نے چین کی سائبر جنگی صلاحیتوں پر بھی خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل وکرٹ نے انکشاف کیا کہ چین نے امریکہ کے بجلی کے نظام میں داخل ہو کر میلویئر نصب کیا ہے، جو بجلی، پانی اور گیس جیسے بنیادی ڈھانچے کی نگرانی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’’چین نے ان نظاموں تک رسائی حاصل کی اور ان کا نقشہ تیار کیا، جو یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ یہ دراصل جنگی اقدام سمجھا جاتا ہے۔‘‘

1990 کی دہائی میں PLA اتنی مضبوط نہیں تھی۔ جب مغربی ممالک اربوں ڈالر اپنی افواج پر خرچ کر رہے تھے، PLA کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکے۔

سنگاپور میں ایس راجارٹنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر فیلو اور امریکی محکمہ دفاع میں سابق ڈائریکٹر برائے چین، ڈریو تھامسن کے مطابق:

’’فوج کے پاس سرکاری بجٹ نہ ہونے کے باعث اسے اپنی آمدنی خود پیدا کرنی پڑتی تھی۔ یہ کارخانے، سروسز، لاجسٹک بزنس میں سرمایہ کاری کرتی اور دیہی علاقوں میں اپنا کھانا بھی خود اگاتی۔‘‘

اگرچہ PLA نے کئی دہائیوں میں طویل سفر طے کیا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ اب بھی ایسی رکاوٹوں کا شکار ہے جو اسے امریکہ کے برابر آنے سے روکتی ہیں۔

مثلاً، امریکی فوج کو عراق اور افغانستان جیسے میدانوں میں عملی تجربہ حاصل ہے، جب کہ PLA نے کئی دہائیوں سے کوئی جنگ نہیں لڑی۔

چینی افواج کو ہم آہنگی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جب کہ امریکی فوج مکمل طور پر مشترکہ فورس کے طور پر کام کرتی ہے، PLA کی تینوں شاخیں (فضائیہ، بحریہ، بری فوج) مکمل تعاون سے محروم ہیں۔

اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا حب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، کِچ لاؤ کے مطابق PLA کی جنگی تیاریوں کی سطح بھی امریکی فوج سے کم ہے۔

مثال کے طور پر: ’’اگر امریکہ کو کسی ایک مقام پر بمباری کرنی ہو تو وہ ایک طیارہ بھیج سکتا ہے، اسے بیک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چین کو ایسا بیک اپ رکھنا پڑتا ہے۔

اگرچہ امریکی فضائیہ کی تیاری گزشتہ سال تقریباً 60 فیصد رہی – جو کہ کمزور تصور کی جاتی ہے – لیکن چین کی شرح، جو عوامی نہیں کی جاتی، اس سے بھی کم بتائی جاتی ہے۔

چین کی دفاعی کمزوریاں اس کے بنیادی ڈھانچے سے بھی جڑی ہیں، کیونکہ PLA چینی کمیونسٹ پارٹی کا ذیلی ادارہ ہے، نہ کہ ایک آزاد ادارہ جیسا کہ امریکہ یا برطانیہ میں ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ PLA اکثر تخلیق کرنے کے بجائے نقل پر انحصار کرتی ہے۔ اپنے سازوسامان اور ٹیکنالوجی کو خود تیار کرنے کے بجائے، چین عموماً امریکی ماڈلز کی پیروی کرتا ہے، جو اسے کبھی ان کے برابر، یا آگے نکلنے سے روکتا ہے۔

ترجمہ: ڈاکٹر اسامہ شفیق 

نوٹ: دی سنڈے ٹیلیگراف برطانیہ کا ایک معتبر اخبار ہے۔ چین کی دنیا میں بالادستی، پاکستان، انڈیا جنگ کے حوالے سے یہ تجزیہ 25 مئی 2025 کو اخبار میں شائع ہوا۔ یہ تجزیہ الیگرا مینڈیلسن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے جبکہ ڈاکٹر اسامہ شفیق نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس تجزیے کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مانچسٹر، برطانیہ

ڈاکٹر اسامہ شفیق ابلاغیات، عالمی امور کے ماہر اور استاد ہیں، جرنلزم میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں، یونیورسٹی آف کراچی میں پڑھاتے رہے ہیں آج کل مانچسٹر، انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ فیس بک اور ایکس پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اسامہ شفیق

ڈاکٹر اسامہ شفیق

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس