فرانسیسی صدر ایمانویل ماکرون فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، تاہم ماہرین اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسرائیل پر امن معاہدہ کی جانب دباؤ ڈالنے کے لیے قبل از وقت اور غیر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ تجویز فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے 17 تا 20 جون اقوام متحدہ کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس سے قبل زیرِ غور ہے، جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کا روڈ میپ پیش کرنا ہے۔ اگر ماکرون نے یہ قدم اٹھایا تو فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا مغربی طاقتور ملک ہوگا، جس سے اس عمل کو نئی تحریک مل سکتی ہے جو اب تک چھوٹے اور اسرائیل پر تنقید کرنے والے ممالک تک محدود ہے۔
ناروے کے وزیر خارجہ اسپین بارٹ ایڈے کا کہنا ہے کہ اگر فرانس نے اقدام کیا تو متعدد یورپی ممالک اس کی پیروی کریں گے۔
ماکرون کے مؤقف میں تبدیلی اسرائیل کے غزہ میں جاری حملوں اور مغربی کنارے میں آبادکاروی کی بڑھتی ہوئی پُرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں آئی ہے۔ فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے محض بیانات کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔

تاہم سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ صدر ماکرون نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا، اور جون کے وسط تک حالات، مثلاً غزہ میں ممکنہ جنگ بندی، فیصلے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی سفارتکار اقوام متحدہ کی کانفرنس کے دوران فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات، حماس کے غیر مسلح ہونے اور مستقبل کی تعمیرِ نو جیسے پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام طویل عرصے سے فرانس کو اس اقدام سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے، جسے بعض حلقے دو طرفہ تعلقات کے لیے “ایٹمی بم” قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس مہینے برطانیہ، کینیڈا اور فرانس کے ممکنہ اقدامات پر سخت ردعمل دیا اور ان ممالک کے رہنماؤں پر یہودی مخالف جذبات کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے فرانس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تو انٹیلی جنس تعاون کم کیا جا سکتا ہے اور بعض علاقائی منصوبوں میں مشکلات کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی کنارے کے بعض حصوں کے الحاق کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔
صدر ماکرون نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی حمایت کی تھی، تاہم غزہ میں فلسطینی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بعد ان کے بیانات میں سختی آئی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق اب تک غزہ میں 50,000 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

اپریل میں ایک انٹرویو میں ماکرون نے کہا کہ “ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے، اور آنے والے مہینوں میں ایسا ممکن ہو سکے گا” تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اِس کے لیے بین الاقوامی اتحاد کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے، اور ریاض کا مؤقف ہے کہ علاقائی امن کا آغاز فلسطینی ریاست کے تسلیم کرنے سے ہوتا ہے۔
یورپی یونین کے بعض رکن ممالک کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا تسلیم کیا جانا اس وقت مؤثر نہیں ہوگا اور یہ اقدام فلسطینی فریقین کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
دوسری جانب کچھ حلقے یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ صرف تسلیم کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اسرائیلی بستیوں سے متعلق تجارتی پابندیاں اور اسرائیلی حکام پر پابندیاں بھی عائد کی جانی چاہئیں۔
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو اسرائیلی دباؤ میں آئیں گے اور نہ ہی تنقید سے پیچھے ہٹیں گے۔ ایک اعلیٰ فرانسیسی اہلکار کے مطابق “اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی تاریخی لمحہ ہے، تو شاید وہ لمحہ آ چکا ہے۔”