خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر چترال میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے قصابوں پر گوشت کی فروخت اور ذبیحہ سے متعلق ایک متنازع معاہدہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت اسماعیلی قصاب سنی صارفین کو گوشت فروخت نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی گوشت کی ترسیل چترال کے دیگر بازاروں میں کر سکیں گے۔ خلاف ورزی کی صورت میں تین لاکھ روپے جرمانہ، دکان سیل کرنے اور کاروبار پر پابندی جیسی سزائیں دی جائیں گی۔
معاہدے کے مطابق گرم چشمہ کے مرکزی بازار میں کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو قصاب کی دکان کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ صرف فروزن چکن کی دکان کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ذبح شدہ چکن کی فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ گرم چشمہ کے قاضی بازار میں صرف اہلسنت قصاب کام کر سکیں گے، جبکہ قریبی بازار میں صرف اسماعیلی برادری کو اجازت ہوگی۔
دونوں مسالک کے قصابوں کو اپنی دکان پر واضح شناختی رسید اور لیٹر ہیڈ رکھنا لازم ہوگا تاکہ گوشت کے ذبح کرنے والے کی شناخت ممکن ہو سکے۔
متعدد مقامی اسماعیلی افراد نے اس معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے کاروبار بند کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس معاہدے کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ کمیشن نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایسے اقدامات شہریوں کو مساوی معاشی مواقع سے محروم کرتے ہیں اور آئین پاکستان کے منافی ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق کا کہنا ہے کہ ’’ریاست پر لازم ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ کسی بھی جرگے یا معاہدے کی قانون میں کوئی حیثیت نہیں اگر وہ آئینی اصولوں کے خلاف ہو۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام چترال کے نائب امیر قاری جمال عبدالناصر نے معاہدے کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اہلسنت افراد اسماعیلی ذبیحہ استعمال نہیں کرتے اور معاہدے کا مقصد صرف گوشت کی شناخت کو یقینی بنانا ہے تاکہ ہر فرد اپنی مذہبی ترجیحات کے مطابق فیصلہ کر سکے۔
تاہم، انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی اس معاہدے کو امتیازی سلوک قرار دے رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس پر فوری کارروائی کرے اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے۔