ٹیسلا کے ارب پتی سربراہ ایلون مسک ٹرمپ انتظامیہ کو چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی مہم کی قیادت کر رہے تھے جس کا مقصد امریکی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانا تھا، لیکن وہ اس مشن میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کی سبکدوشی کا عمل بدھ کی رات سے شروع ہو گیا ہے۔ بدھ کے ہی روز مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ وہ حکومت کے ساتھ ایک خاص ملازم کے طور پر اپنی خدمات ختم کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی گولی چلاؤ گے تو جواب میں غوری چلے گا, حافظ نعیم الرحمان
ان کا استعفیٰ اچانک اور غیر رسمی انداز میں ہوا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق انہوں نے صدر ٹرمپ سے اس بارے میں کوئی باضابطہ بات چیت نہیں کی، بلکہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ سطحی عملے نے کیا۔ ان کے استعفے کی اصل وجوہات فوری طور پر سامنے نہیں آ سکیں، مگر ایک دن پہلے ہی انہوں نے ٹرمپ کے ٹیکس بل پر تنقید کی تھی، جسے انہوں نے مہنگا اور نقصان دہ قرار دیا تھا، خاص طور پر DOGE سروس کے لیے۔

مسک نے حالیہ ہفتوں میں کچھ اعلیٰ حکومتی شخصیات سے نجی ملاقاتیں کی تھیں، جبکہ انہوں نے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناوارو نے ان کے “زیرہ ٹیرف” کے مطالبے کو بے بنیاد طریقے سے رد کیا۔
منگل کو مسک نے ریپبلکن پارٹی کی ٹیکس اور بجٹ پالیسیوں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں خسارہ بڑھا رہی ہیں اور ان کی ٹیم کے کام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کچھ سرمایہ کاروں نے ان سے کہا کہ وہ مشیر کے طور پر کام چھوڑ کر ٹیسلا پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ کمپنی کی فروخت اور اسٹاک کی قیمت میں کمی آ رہی تھی۔
مسک، جو دنیا کے امیر ترین شخص سمجھے جاتے ہیں، نے امریکی حکومت کے کچھ حصوں کو ختم کرنے کے غیر معمولی اختیار کو درست قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں پر اب زیادہ رقم خرچ نہیں کریں گے، حالانکہ پچھلے سال انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم پر تقریباً 300 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ قطر میں ایک اقتصادی فورم میں بات کرتے ہوئے مسک نے کہا، “مجھے لگتا ہے کہ میں نے کافی کام کر لیا ہے۔”