توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ آرڈر کے باوجود سماعت کے لیے بینچز مقرر نہ کرنے پر سپریم کورٹ میں تعینات ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے حکم پر بینچز مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کے کیس پر سماعت کی ، جس میں سپریم کورٹ کے ایڈشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر پیش ہوئے۔
نجی ٹی وی ایکسپریس کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن پرویز اقبال کے دستخط سے نذر عباس او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے اور یہ نوٹیفکیشن رجسٹرار سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا۔نوٹیفکیشن میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، رجسٹرار کی غلطی سے سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے لگا دیا گیا، اس کے نتیجے میں عدالت کا وقت ضائع ہوا۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیے عدالت کے حکم کے باوجود بینچ مقرر کیوں نہیں کیا گیا، جس کے جواب میں رجسٹرار نذر عباس نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا اور غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی کے اجلاس کے لیے آپ نے خود درخواست دی یا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا ؟ جس کے جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔
عدالت میں نوٹ دکھائے گئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں لکھا ہے کہ 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہا جا رہا ہے، جب کہ آرڈر میں بتایا گیا تھا کہ کیس کی سماعت کس بینچ پر ہونی ہے۔
دوسری طرف رجسٹرار نے مؤقف اپنا یا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایااورکمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے۔ ترمیم کے بعد جائزہ لیاگیا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں اورکونسے نہیں۔
جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟ جواب میں رجسٹرار نے کہا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس لینے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک کا ہوتا ہے اور جب کیس چل پڑے تواس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہو جاتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بینچ اختیار کا کیس جوڈیشل عدالت فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے؟ جس پربیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 اے فل کورٹ کے اختیارات محدود نہیں کرتا۔ یہ عدالت 26ویں ترمیم کے تحت بینچز اختیارات کا کیس فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی بینچ نے آرڈر سے بڑے بینچ کے لیے فائل بھیجی اس پر عمل ہوا۔
دوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی جس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ یہ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں لیا گیا تھا۔
عدالت نےاٹارنی جنرل کو فوری طور پر طلب کر لیا جس میں عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت کر دی اور کہا کہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلا کو کل سنیں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 22 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔
یاد رہے کہ بینچ اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھا تھا اور معاملے کو توہین عدالت قرار دیا تھا۔