Follw Us on:

کنزیومر کورٹس کا خاتمہ ،پنجاب حکومت کا عوام دشمن فیصلہ اور اس کا خطرناک پہلو

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Tommorow blog
کنزیومر کورٹس کا خاتمہ ،پنجاب حکومت کا عوام دشمن فیصلہ اور اس کا خطرناک پہلو

کنزیومر کورٹس کا قیام کسی سیاسی رہنما کی ذات تک محدود نہیں بلکہ یہ قانون کی بالادستی،شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور ریاست کی فلاحی ذمہ داریوں کا مظہر ہے۔

یہ عدالتیں کسی فرد،پارٹی یا حکومت کے ذاتی مفاد کی غرض سے نہیں بلکہ ایک ایسے عوامی خواب کی تعبیر تھیں،جہاں کمزور اور بے بس صارف کو اُس دکاندار،صنعتکار یا کارپوریشن کے خلاف انصاف میسر ہو سکے جو اپنی طاقت کے نشے میں غلطی،جعلسازی یا فراڈ کا مرتکب ہوتا ہے۔

جب 2005 میں “ایکسس ٹو جسٹس پروگرام”کے تحت کنزیومر کورٹ ایکٹ پنجاب اسمبلی سے منظور ہوا اور 2006 میں عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت شاید بہت سے لوگوں  نے اسے ایک غیر ضروری اور فضول منصوبہ سمجھا ہو مگر آج دو دہائیاں گزرنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ نظام پنجاب کے فلاحی اور قانونی ڈھانچے میں ایک روشن باب کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔

چوہدری پرویز الٰہی کے دورِ وزارت اعلیٰ میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ آج اس مقام پر آ چکا ہے جہاں اُس کے تابناک ثمرات کی گواہی نہ صرف پنجاب بلکہ دوسرے صوبے بھی دے رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت  نے 24 اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت  نے 27 کنزیومر عدالتیں قائم کر کے یہ ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو،وژن واضح ہو اور ترجیح عوام ہو تو کسی اچھے منصوبے کو سیاسی مخالفت کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا لیکن پنجاب میں ایک عجیب و غریب انتقامی سیاست برسوں سے رائج ہے جہاں اچھے کام کا معیار یہ ہے کہ اسے کس  نے شروع کیا؟اور بدقسمتی سے اگر وہ کام کسی”سیاسی دشمن“ نے کیا ہو تو چاہے وہ کتنا ہی کامیاب اور عوامی مفاد کا حامل کیوں نہ ہو، اُسے ختم کرنے میں ہی فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

پنجاب میں قائم 17 کنزیومر کورٹس نہ صرف ایک موثر عدالتی نظام کی علامت تھیں بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی تھیں کہ ایک عام شہری کو بھی انصاف کی دہلیز تک رسائی ممکن ہے،ان عدالتوں میں دائر ہونے والے نوے ہزار کیسز کا سو فیصد ڈسپوزل کوئی معمولی بات نہیں، یہ اعزاز کسی اور عدالتی نظام کو حاصل نہیں، یہاں فیصلے برسوں نہیں مہینوں اور بعض اوقات ہفتوں میں سنائے جاتے۔

ان عدالتوں سے شکایت کنندہ کو سو فیصد انصاف مل رہاتھا،یہاں صرف صارفین کی شکایات سنی جاتی تھیں،کوئی بھی خود درخواست دے کر انصاف لے سکتا تھا،جہاں عام عدالتوں میں دیوانی مقدمات نسلیں کھا جاتے ہیں،وہاں کنزیومر کورٹس  نے چند ماہ میں انصاف کی مثالیں قائم کیں۔

کنزیومر کورٹس کی شہرت عام ہو رہی تھی،لوگوں کی توجہ ان عدالتوں کی جانب مبذول ہو رہی تھی اور لوگ اپنے حقوق کے لئے ان عدالتوں سے بے دھڑک رجوع کرنے لگے تھے،ایسی حالت میں جب پورا معاشرہ انصاف کے لیے ترس رہا ہو،عدالتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہو اور عام شہری مایوسی کا شکار ہو،کنزیومر کورٹس ایک ایسی کرن تھیں جنہوں نے ظلم،دھوکہ دہی اور جعلسازی کے خلاف عوام کو امید دی لیکن کیا کریں کہ ہم ایک ایسی سیاسی روش کے اسیر ہو چکے ہیں جہاں سیاسی عناد،انتقام اور خاندانی دشمنیاں پالیسی سازی کے فیصلوں پر حاوی ہو چکی ہیں۔

شہباز شریف اپنی وزارت اعلیٰ کے طویل دور میں شاید بہت سے منصوبے لا سکے مگر وہ کبھی کنزیومر کورٹس یا ریسکیو 1122 جیسے ”پرویز الٰہی کے پودے“ اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن اب اُن کی” ہونہار بھتیجی“وزیر اعلیٰ مریم نواز،یہ کارنامہ انجام دینے جا رہی ہیں۔

پہلے پنجاب پرائس کنٹرول اینڈ کموڈٹی مینیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ  نے صوبے میں قائم 17 صارف عدالتوں کو عوامی فائدے سے زیادہ کروڑوں روپے کے فنڈز کا ضیاع قرار دے کر بند کرنے اور لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے ڈسٹرکٹ ججز کو صارف عدالتوں کا اختیار دینے کی سمری کابینہ کو بھجوائی گئی اور اب پنجاب حکومت کی جانب سے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو آئندہ پندرہ دنوں میں اپنی سفارشات پیش کرے گی مگر باخبر ذرائع اور بین السطور واضح اشارے یہی بتاتے ہیں کہ یہ کمیٹی دراصل ایک رسمی کارروائی ہے،جس کا مقصد محض اس اقدام کو قانونی اور بیوروکریٹک پردہ دینا ہے۔

اصل ہدف کنزیومر کورٹس کا خاتمہ اور اُن کا الگ عدالتی تشخص مٹا دینا ہے،حکومت کا یہ موقف کہ”ہم فی کیس ایک لاکھ روپے برداشت نہیں کر سکتے“ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت عوامی فلاح کے تصور کو کاروباری منطق کی عینک سے دیکھ رہی ہے۔

کیا انصاف کو نفع و نقصان کے ترازو میں تولا جا سکتا ہے؟کیا آئینی ذمہ داریوں کو لاگت کے گراف سے پرکھا جا سکتا ہے؟؟؟۔

 دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کنزیومر کورٹس ایک ناگزیر ادارہ سمجھی جاتی ہیں،امریکہ،برطانیہ،جرمنی،جاپان،کینیڈا،آسٹریلیا اور بہت سے دیگر ممالک میں یہ عدالتیں نہ صرف فعال ہیں بلکہ وہاں کے عوام ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔

برطانیہ میں ”ٹریڈنگ سٹینڈرڈز“ اور ”سمال کلیمز کورٹ“ کے تحت صارفین کو طاقتور کمپنیوں کے خلاف لڑنے کی مکمل آزادی اور سہولت حاصل ہے،انڈیا جیسے ہمسایہ ملک میں بھی ”کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ“ کے تحت ہر ضلع میں کنزیومر کورٹ قائم ہے اور وہاں صارفین کے لیے قانونی چارہ جوئی نہایت آسان اور موثر ہے۔

یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ  نے کئی مقدمات میں یہ قرار دیا ہے کہ کنزیومر کورٹس کا دائرہ صرف صارفین کی شکایات تک محدود نہیں بلکہ یہ ادارے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں، اس تصور  نے وہاں صارف کو طاقت دی ہے،اعتماد دیا ہے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیا ہے جبکہ ہم،جو خود کو جمہوری اور فلاحی ریاست کہتے ہیں، کنزیومر کورٹس جیسے بنیادی ادارے کو ختم کر کے گویا صارف کو بے یار و مددگار میدان میں چھوڑ رہے ہیں۔

حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ کنزیومر کورٹس کا خاتمہ صرف ایک عدالتی ادارے کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ ریاست اور شہری کے درمیان اعتماد کے رشتے کو توڑنے کے مترادف ہے،جب ایک شہری کسی پراڈکٹ یا سروس سے دھوکہ کھاتا ہے اور اُسے انصاف کے لیے عدالت تک رسائی حاصل ہوتی ہے تو یہ صرف ایک مقدمہ نہیں بلکہ پورے نظام پر اعتماد کی مہر ہوتی ہے۔

کنزیومر کورٹ کا جج جب کسی بااثر کمپنی کو جرمانہ کرتا ہے تو عام آدمی کو لگتا ہے کہ ریاست اُس کے ساتھ کھڑی ہے،اب اگر یہ ادارہ ہی ختم کر دیا جائے تو صارف کہاں جائے؟ تھانے؟ سول کورٹ یا میڈیا پر دہائیاں دے؟؟؟ضلعی عدالتوں پر توپہلے ہی کیسوں کا بوجھ زیادہ ہے،صوبے بھر میں زیر التوا کیسوں کی تعداد لاکھوں میں ہے،ایسے میں اگر صارف عدالتوں کا کام بھی مقامی عدالتوں سے لینے کا قانون بنایا جاتا ہے تو صارفین کو بھی بروقت انصاف نہیں مل سکے گا۔

اس تمام صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو کام شہباز شریف نہیں کر سکے،وہی کام اُن کی بھتیجی مریم نواز کرنے جا رہی ہیں اور یہ صرف ایک عدالتی ادارے کا خاتمہ نہیں،یہ ایک سوچ، ایک وژن،ایک اصولی موقف کی شکست ہے۔

اگر ہم  نے اپنی ریاستی پالیسیوں کو سیاسی انتقام،ذاتی عناد اور خاندانی رقابت کی بنیاد پر تشکیل دینا ہے تو پھر ہم خود سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ آخر ہم کب تک اپنے ہی اداروں کو مسمار کرتے رہیں گے؟؟؟پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس منصوبے پر نظرثانی کرے۔

اگر کسی کنزیومر کورٹ میں بدانتظامی ہے یا افسران غیر موثر ہیں،تو اُنہیں بدلیں،اُن کی تربیت کریں یا بہتر مانیٹرنگ سسٹم بنائیں مگر اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی روش سراسر تباہ کن ہے،اگر مالی وسائل کی کمی ہے تو اس کا حل ادارے کا خاتمہ نہیں بلکہ اُس کے اخراجات میں کمی،کارکردگی میں بہتری اور نجی شعبے کی شراکت داری جیسے اقدامات ہو سکتے ہیں مگر افسوس،ہم  نے ہمیشہ آسان راستہ چنا ہے” ادارے بند کرو،تختیاں اتارو اور پرانے منصوبوں کو نیا نام دے کر نئی تختیاں لگا دو“۔

کاش پنجاب حکومت کو کوئی یہ بتا سکے کہ ریاستی معاملات کاروباری زبان میں نہیں چلتے،یہ کوئی ”پرافٹ اینڈ لاس اکاونٹ“ نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہے،جس میں شہری ریاست سے انصاف،سہولت،تحفظ اور وقار کی توقع رکھتا ہے۔

آخر میں ایک سادہ سا سوال ہے کہ اگر کل کوئی ہوٹل والا باسی کھانا کھلا دے، کوئی کمپنی ناقص موبائل بیچ دے،کوئی کار ساز ادارہ ناقص گاڑی دے دے، تو ایک عام شہری کہاں جائے؟؟؟ تھانے، سول عدالت یا حکومت کی ہیلپ لائن؟ جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو، کیونکہ ہم  نے انصاف کے ان چھوٹے مگر اہم دروازوں کو بند کرنے کی روش اپنا لی ہے،یہ  دروازے بند ہوئے تو عوام کی امید، اعتماد اور ریاست پر یقین بھی بند ہو جائے گا اور یہی اس فیصلے کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس