1905میں مزدوروں نےروسی بادشاہ سے ‘سینٹ پیٹرز برگ’ شہر میں انصاف اور تحفظ کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں سیاسی سرگرمیوں کی شروعات ہوئی، 22 جنوری 1905 کے روز پُرامن مظاہرہ کرنے والے مزدوروں پر شاہی گارڈز نے فائرنگ کی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور یوں اس دن کو ‘بلڈی سنڈے’ قرار دیا گیا۔
جب روس جنگوں اور داخلی انتشار کے باعث زوال کا شکار تھا، ملک میں افسر شاہی کا غلبہ تھا جو زراعت، تجارت سمیت دیگروسائل پرغالب تھی، 1900 میں روس میں صنعتی ورکرز کی کمی تھی اور بیشتر آبادی زراعت سے وابستہ تھی، حالانکہ تب تک روس میں فیکٹریاں قائم ہو چکی تھیں لیکن صنعتی مزدوروں کا استحصال بھی کسانوں کی طرح ہی تھا۔روس میں زرعی بیگاڑ یا ‘سرفڈم’ کے ذریعے قانونی تحفظ کے باوجود بھی کسان کی حالت زار تھی۔
انسوی صدی کے نصف میں وسطی ایشیا کی کپاس نے ماسکو کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مزکز تو بنا دیا لیکن روسی بادشاہ کے خلاف عوامی نفرت کو جنم بھی دیا، بعد ازاں عالمی جنگ نے روسی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا جس سے شدید معاشی بحران نے سر اٹھایا، جنگی اخراجات بھی عوامی فلاحی منصوبوں میں کمی اور فوجی زوال کا سبب بنے۔
1917 کے آغاز سے ہی مزدوروں نے ہڑتالیں شروع کیں جو جلد ہی سیاسی مظاہروں میں تبدیل ہو گئیں، ڈیڑھ لاکھ مزدورں کی جانب سے خونی سالگرہ پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور حکومت کی جانب سے ‘روٹی کارڈ’ متعارف کرایا گیا جس نے عوام بھڑک اٹھے، خواتین بھی روٹی کارڈ کے لئے باہر نکل آئیں جس نے انقلاب کی چنگاری کو ہوا دی۔

فروری 1917 میں خواتین کے عالمی دن پر ‘سینٹ پیٹرز برگ’ میں خوراک کی قلت پرخواتین نے تاریخی ہڑتال کی جسے ‘فروری انقلاب’ کہا جاتا ہے، اس ہڑتال میں تقریباً 50 ہزار مزدور شامل تھے اور صرف 2 دن میں تمام صنعتی مراکز بند ہو گئے، مزدوروں کے ساتھ طلبہ، سفید پوش کارکن اوراساتذہ بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے، 27 فروری تک دارالحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا، مارچ تک روسی شہنشاہ ‘زار نکولس دوم’ تخت چھوڑ چکے تھے اور شاہی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا، اس انقلاب کی سربراہی پرنس جورجی لفوف نے کی جو عبوری حکومت کی باگ دوڑ سنبھال رہا تھا۔
روسی انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین (USSR) کا قیام ہوا جس نے مختصر عرصے میں شاندار ترقی کی، 1922 میں اس وفاقی ریاست کا قیام ہوا جس کا مختلف ممالک اور قومی ریاستیں (سوویت جمہوریتیں) حصہ تھیں، ان ممالک میں روس، یوکرین، بیلاروس، قازقستان، آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا، تاجکستان، ازبکستان، کِرغزستان، ترکمانستان، مولدوا، لٹویا، لیتھوانیا، استونیا، قزاقستان اور گورکی شامل تھے۔
1945 تک سوویت یونین نے اپنی معیشت کو بحال کیا اور دنیا کی دوسری عظیم طاقت بن گئی، 1917 میں ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود سوویت یونین نے سائنس، صحت اور تعلیم میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ پہلا خلائی سیارہ بھی تیار کیا۔
1924 میں اسٹالن اقتدار میں آئے اور اپنی آہنی حکمت عملی سے پارٹی کو مضبوط کیا لیکن ان کو بہت سی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، اسٹالن نے دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کو شکست دی اور روس میں صنعتی انقلاب برپا کیا، بعد ازاں 1991 میں سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔