انڈین وزیر اعظم نریندرا مودی نے ایک بار پھر پاکستان کودھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کسی خوش فہمی میں نہ رہے، آپریشن سندور ابھی ختم نہیں ہوا۔‘
عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز کے مطابق انڈین ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی کا کہنا تھا کہ انڈیا نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں تین اصول واضح کر دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا اصول یہ ہے کہ ہر حملے کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ جواب کا وقت، طریقہ اور شرائط انڈیا کی مسلح افواج خود طے کریں گی اور تیسرا یہ کہ ایٹمی دھمکیوں سے انڈیا مرعوب نہیں ہوگا۔
مودی نے کہا کہ ’اب انڈیا ایٹمی دھمکیوں سے ڈر کر فیصلے نہیں کرے گا، جو بھی دشمن ہماری سرزمین پر حملے کی کوشش کرے گا، وہ دنیا میں کہیں بھی ہو، اسے بخشا نہیں جائے گا۔‘
مودی نے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کا اسٹیٹ ایکٹر اور نان اسٹیٹ ایکٹر کا کھیل اب مزید نہیں چلے گا۔ انڈیا کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین پر حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔”

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے ان الزامات کو ماضی کی طرح ایک بار پھر سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کا مؤقف ہے کہ انڈیا کی جانب سے ہر حملے کا الزام پاکستان پر دھر دینا ایک روایتی حکمتِ عملی ہے، جس کا مقصد داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ مودی کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب رواں ماہ کے آغاز میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیا تھا۔ اس کے بعد انڈین فضائیہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سمیت مختلف علاقوں میں فضائی کارروائیاں کیں، جن کے جواب میں پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کیے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی چار روز تک جاری رہی، جس دوران لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھاری شیلنگ، فضائی سرگرمیاں اور اہداف پر حملے سامنے آئے۔ بعد ازاں دونوں ممالک نے بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔
مزید پڑھیں: ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی قربت: پاکستان کیسے سفارتی توازن برقرار رکھ سکتا ہے؟
خیال رہے کہ پاکستان کی قیادت نے اس کشیدگی کے بعد انڈیا کو مذاکرات کی دعوت دی۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن کا خواہاں ہے اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا پرامن حل چاہتا ہے۔
دوسری جانب انڈین حکومت نے پاکستان کی امن پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ’دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘
جنگ بندی کے باوجود انڈین حکام بارہا یہ بیانات دیتے آ رہے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان کے اندر موجود ’دہشت گرد ٹھکانوں‘ کو دوبارہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔