سنہرے مستقبل کے لیے غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگانے کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔ایجنٹ مافیا کے جھانسے اپنی مجبوریوں سے ہارے ہوئے لوگ اپنی جان اور اپنا مال بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔سنہرے خوبوں کی تعبیرپانے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں جیسا کہ مراکش کشتی حادثے میں 44 پاکستانی سمیت 50 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اب اِس حادثے کے بعدانکشاف ہوا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ جاں بحق ہونے والوں کا قتل عام کیا گیا، مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی جو واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہیں اُن کے بقول ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑدیا گیا جبکہ تاوان نہ دینے والوں کو پانی میں دھکیل دیا گیا ۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار زیادہ تر لوگ سخت سردی اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے۔ کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا۔ جبکہ خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ اسمگلرز کی جانب سے ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ مراکش کی بندرگاہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک متاثرین نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5 جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔

اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے، اب اِس خبر کو دیکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشتی کو بنیادی طور پر یرغمال بنا لیا گیا اور صرف وہ لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے جنہوں نے تاوان دیا۔ اب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے ستائے لوگ ہی ایسے مشکل راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بےروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے بیرون ملک کارخ کررہی ہے، اِسی طرح پروٹیکٹر اینڈ امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں خراب معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث لاکھوں پاکستانی بیرون ملک چلے گئے، بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی پروفیشنل اور ٹیچرز سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سینکڑوں کی تعداد میں آرٹسٹ پاکستان کو خیر آباد کہہ گئے۔
پروٹیکٹر امیگرینٹس کے ڈیٹا کے مطابق دو سالوں میں 16 لاکھ کے قریب پاکستانی یورپ، امریکہ، کینیڈا ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، کویت، ترکیہ، ملیشیا، آسٹریلیا، سنگاپور، چین اور دیگر ممالک میں چلے گئے۔ پروٹیکٹر کی فیس 7200 سے 9200 روپے تک ہے جو بھی بیرون ملک ملازمت کے لیے جائے گا اسے پروٹیکٹرز کی اسٹیمپ لازمی کروانا پڑے گی، اس کے بغیر وہ پاکستان سے ٹریول نہیں کر سکتے، بیرون ملک جانے والے ان پاکستانیوں میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے جبکہ سیلف ویزا لے کر بھی جانے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یہ تو وہ تعداد تھی جو جائز طریقے سے گئی۔

ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو ناجائز طریقے سے ڈنکی لگا کر یورپ، سعودی عرب ، دبئی اور دیگر ممالک میں جانے میں کامیاب ہو گئے، اور کئی تو اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے۔ بہرحال پاکستان سے جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سول، الیکٹرک اور مکینیکل انجینیئرز کی ہے جو 8 ہزار 145 ہے، ان کے علاوہ 5700 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، 3642 ڈاکٹر، 5 ہزار 315 آئی ٹی پروفیشنل، 3 ہزار نرسز اور 432 فنکار جس میں اینیمیشن، گرافک ڈیزائنر اور آرٹسٹ بھی شامل ہیں جو مختلف اسٹیج ڈراموں فلموں میں کام بھی کر چکے تھے، ان کی بھی بڑی تعداد پاکستان کو خیر آباد کہہ کر چلی گئی ہے۔