شمال مشرقی شام میں قابض کرد فورسز کے اعلیٰ کمانڈر مظلوم عبدی نے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی فورسز ترکی کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہیں اور وہ ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے لیے بھی تیار ہیں۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شام کی خانہ جنگی کو 14 سال مکمل ہو چکے ہیں اور ترکی و کرد فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کی طویل تاریخ رہی ہے۔
شمس ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عبدی نے بتایا کہ “ہماری ترکی کے ساتھ براہِ راست بات چیت جاری ہے اور ہم ان تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔”
انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ رابطے کب سے قائم ہیں تاہم اس انکشاف نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے جبکہ ترکی کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
واضح رہے کہ ترکی طویل عرصے سے کرد ملیشیا “وائی پی جی” کو دہشتگرد تنظیم “پی کے کے” کا حصہ سمجھتا آیا ہے، جس نے حال ہی میں 40 سالہ مسلح جدوجہد کے بعد خود کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نائیجیریا میں ’شدید سیلاب‘ نے 115 لوگوں کی جان لے لی، درجنوں افراد تاحال لاپتہ
مظلوم عبدی کی سربراہی میں قائم سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) ترکی کے خلاف ماضی میں کئی بار میدان جنگ میں اتری ہے۔
عبدی کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی قائم ہے اور وہ پرامید ہیں کہ یہ عارضی جنگ بندی مستقل امن میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے ایک طویل جنگ لڑی ہے لیکن اب جنگ بندی نے ہمیں نئی راہیں دکھائی ہیں۔”
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا وہ ترک صدر سے ملاقات کریں گے، عبدی نے کہا کہ “فی الحال ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں لیکن میں اس کا مخالف بھی نہیں ہوں۔ اگر حالات سازگار ہوں تو ہم ہر امکان پر غور کریں گے۔ ہم ترکی سے جنگ کی حالت میں نہیں، تعلقات کی بحالی کی امید رکھتے ہیں۔”
عالمی میڈیا ادارے المانٹر کے مطابق ترکی نے عبدی سے اعلیٰ ترک عہدیدار کو ممکنہ طور پر وزیر خارجہ یا انٹیلیجنس چیف سے ملاقات کی تجویز دی ہے۔
گزشتہ دسمبر میں امریکا کی ثالثی سے ایک جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا جب SDF اور ترکی کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔
لازمی پڑھیں: ’مقامی صنعت کا تحفظ‘، امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کرنے کا اعلان
مارچ میں عبدی نے شامی عبوری صدر احمد الشراع کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت شمال مشرقی شام کی نیم خودمختار حکومت کو دمشق کی مرکزی حکومت میں ضم کیا جانا ہے۔
تاہم جمعرات کے روز ترک صدر اردوان نے SDF پر اس معاہدے کے نفاذ میں تاخیر کا الزام لگایا۔
اس کے ردعمل میں عبدی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “ہم مکمل طور پر معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔”
اس انٹرویو میں عبدی نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی سختی سے تردید کی۔
انہوں نے کہا کہ “ہم پر ایسے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ہمارا اسرائیل سے کوئی رابطہ نہیں۔”
یہ پیش رفت خطے میں ایک نئے سفارتی باب کی جانب اشارہ کرتی ہے جس کے اثرات نہ صرف شام بلکہ ترکی اور دیگر ہمسایہ ممالک پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چین طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے، امریکی وزیردفاع