ملی یکجہتی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ کم عمری سے متعلق غیر آئینی اور غیر شرعی قانون سازی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا جائے گا، جس کے لیے تمام دینی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سمیت مرکزی رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بلوغت کے شرعی پہلوؤں اور قرآن و سنت کے احکامات کو نظرانداز کر کے کی گئی قانون سازی اور صدر پاکستان کی جانب سے اس بل پر دستخط غیر آئینی اور آئین پاکستان کی روح کے صریحاً خلاف ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ کم عمری کی شادی کے بل کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ یہ بل قرآن و سنت کی تعلیمات اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ اس کے باوجود حکومت اور ایوان صدر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہ دی، جو کہ باعث تشویش اور قوم کے لیے باعث تعجب ہے۔
رہنماؤں نے کہا کہ ایک طرف حکومت فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے خطرات کے خلاف اقدامات کرتی ہے اور پوری قوم اس میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ یہ اقدامات آئین اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب حکومت خود قرآن و سنت اور آئین سے متصادم قانون سازی کر کے آئین سے بغاوت کر رہی ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھی:انڈیا نے پاکستانی حملوں میں طیاروں کی تباہی تسلیم کرلی
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی و معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرے، منصوبہ بندی کرے، لیکن اسے یہ اختیار نہیں کہ وہ آئین اور شریعت کی رہنمائی کو نظرانداز کرے۔
ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان مرکزی کابینہ میں اس سنگین غلطی کا ازالہ کریں، غیر شرعی بل کو واپس لیا جائے، اور صدر پاکستان اپنے غیر آئینی اقدام سے رجوع کریں۔ وفاقی حکومت صوبوں کو بھی ہدایت دے کہ اس بل کی روشنی میں مزید قانون سازی سے گریز کریں۔
مزید پڑھیں:توشہ خانہ ٹو کیس: بشریٰ بی بی نے سماعت کے لیے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیوں کیا؟
رہنماؤں نے اعلان کیا کہ منبر و محراب سے قرآن و سنت کے احکامات اور آئین پاکستان کی حفاظت کے لیے آواز بلند ہوتی رہے گی اور دینی جماعتیں اس معاملے پر خاموش نہیں رہیں گی۔