انگلینڈ ٹیم کے کپتان جوس بٹلر نے افغانستان سے چیمپئنز ٹرافی میچ کے بائیکاٹ کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔
برطانیہ کے ایک سو ساٹھ سیاست دانوں نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ گولڈ کو خط لکھا تھا کہ کیوں کہ افغانستان حقوقِ نسواں کا خیال نہیں رکھ رہا اس لیے انگلینڈ کو افغانستان کے ساتھ میچ نہیں کھیلنا چاہیے۔
جب سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔
یاد رہے جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے خواتین پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پہلے تعلیمی نظام میں خواتین کو محدود تعلیم دینے کے متعلق بات ہوئی اور اب خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینے کے بارے میں بھی افغان حکومت قدامت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ افغانستا ن اور انگلینڈ کے درمیان میچ 26 فروری کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جانا ہے۔
یوں اگلے ماہ لاہور میں انگلینڈ اور افغانستان کھیلیں گے۔ افغانستان، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا پول بی میں شامل ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اور ان کے کھلاڑی ای سی بی کے ساتھ بات چیت میں شامل تھے، انگلینڈ کے کپتان بٹلر نے کہا “اس طرح کے سیاسی حالات میں ایک کھلاڑی کے طور پر آپ اتنا ہی باخبر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں جتنا آپ ہو سکتے ہیں۔ ماہرین اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، اس لیے میں روب کی ای سی بی کے مردوں کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور اوپر والے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں رہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اسے کیسے دیکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بائیکاٹ کوئی راستہ ہے”۔
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیمپئنز ٹرافی میں شامل انگلینڈ بمقابلہ افغانستان ضرور کھیلیں گے۔
اس معاملے پر انگلش ٹیم کے فاسٹ باؤلراسٹیو ہارمیسن نے کہا کہ” چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان سے میچ کے بائیکاٹ کے معاملے پر کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے”۔
گلوبل پلیئرز اسپورٹس ایجنٹس پوڈ کاسٹ’ میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹیو ہارمیسن کا کہنا تھا کہ “براہِ کرم کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہ ڈالیں جس طرح ناصر حسین پر 2003 کے ورلڈ کپ کے دوران ڈالا گیا تھا۔ 2003 میں سارا ملبہ کپتان ناصر حسین پر گرایا گیا تھا، وہ کئی روز تک اس معاملے میں پریشان رہے تھے۔ ہماری زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ کھلاڑیوں اور خواتین کو سیاسی معاملات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے”۔