روس اور یوکرین استنبول میں براہ راست دوسری مرتبہ امن مذاکرات کے لیے بیٹھیں گے۔ لیکن دونوں فریق اب بھی جنگ کے خاتمے کے منصوبے سے بہت دور کھڑے ہیں۔ پہلی مرتبہ مذاکرات کے بعد میں قیدیوں کا تبادلہ تو ہوا، لیکن کسی جنگ بندی یا امن معاہدے کی طرف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دونوں ممالک نے صرف اپنی ابتدائی شرائط اور مؤقف واضح کیے۔
صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف مذاکرات میں شریک ہوں گے، جبکہ روسی وفد کی قیادت کریملن کے معاون ولادیمیر میڈنسکی کریں گے۔ میڈنسکی نے پہلے مرحلے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ جنگ اور مذاکرات اکثر ایک ساتھ جاری رہتے ہیں، جیسا کہ نپولین نے بھی کہا تھا۔۔

اتوار کے روز یوکرین نے ایک بڑا حملہ کیا جس میں روسی جوہری بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ روس نے یوکرین پر 472 ڈرون, سات بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے حملے کیے، جو اب تک کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ ان حملوں کے دوران استنبول میں امن کی بات چیت کی تیاری جاری تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ اپنی شدت پر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں فریقوں سے امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے، لیکن وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ضد کی نذر ہوئے تو امریکا جنگی صورتحال سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ کیتھ کیلوگ، جو امریکا کے خصوصی ایلچی ہیں، نے کہا ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندے بھی مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا کس سطح پر نمائندگی کرے گا۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تجویز دی ہے کہ جنگ بندی پر بات چیت اس وقت کی جائے گی جب امن معاہدے کا ابتدائی مسودہ تیار ہو جائے گا۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ تاحال روس کی جانب سے کسی مسودے کا منتظر ہے۔ روسی اہلکار میڈنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو کو یوکرین کا مسودہ موصول ہو چکا ہے اور وہ آج پیر کو اس کا جواب دے گا۔
لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ
یوکرین کے وفد میں نائب وزیر خارجہ کے علاوہ فوجی اور انٹیلیجنس حکام بھی شامل ہوں گے۔ روس کے مطالبات بدستور سخت ہیں، جن میں یوکرین کا نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرنا اور چار متنازعہ علاقوں سے اپنی فوجوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔ ان میں سے بیشتر علاقے اس وقت روس کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
مذاکرات کا یہ دوسرا مرحلہ عالمی برادری کے لیے ایک نازک موقع ہے، کیونکہ ایک طرف لڑائی شدید ہو رہی ہے اور دوسری طرف بات چیت کا آغاز ہو رہا ہے جس میں امن کی کوئی جھلک ابھی تک نظر نہیں آ رہی۔