امریکا کے شہر بولڈر، کولوراڈو میں ایک شخص نے ہجوم پر پیٹرول بم پھینک دیے جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے، جن میں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے اس واقعے کو ممکنہ دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واقعہ بولڈر کے ایک مشہور شاپنگ مال میں پیش آیا، جہاں ‘رن فار دی لائف’ نامی رضاکار گروپ کے کارکن اور مظاہرین جمع تھے۔ مظاہرین غزہ میں جاری انسانی بحران اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبے پر توجہ مبذول کروانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں:اسرائیلی ٹینکوں نے امدادی مرکز پر گولے برسادیے، 31 نہتے افراد شہید، 150 زخمی
ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور کی شناخت 45 سالہ محمد صابری سلیمان کے طور پر کی گئی ہے، جسے موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ مارک میچیلک نے بتایا کہ حملے سے قبل سلیمان نے “فلسطین کو آزاد کرو” کا نعرہ بلند کیا اور اس کے بعد ایک بوتل کو آگ لگا کر ہجوم پر پھینک دیا۔

حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں لوگوں کو چیختے اور دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایک پولیس اہلکار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو بندوق تھامے حملہ آور کی طرف بڑھتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق سلیمان کے ہاتھ میں کئی کنٹینر تھے جو مبینہ طور پر پیٹرول بم سے بھرے ہوئے تھے۔
زخمیوں میں کچھ کی حالت نازک ہے جبکہ دیگر کو معمولی زخم آئے ہیں۔ حملہ آور خود بھی زخمی ہوا اور اسے قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، تاہم حکام نے اس کی حالت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
امریکا میں مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کے اثرات کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دو ہفتے قبل واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے اہلکاروں پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں شکاگو سے تعلق رکھنے والے حملہ آور نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے حملہ فلسطین اور غزہ کے لیے کیا۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ڈین بونگینو نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ اقدام نظریاتی بنیاد پر تشدد پر اکسانے کی ایک کوشش معلوم ہوتا ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف نے اس حملے کو “تشدد کا ایک غیر ضروری اقدام” قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نفرت پر مبنی حملوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
کولوراڈو کے گورنر جیرڈ پولس نے واقعے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: “کسی بھی قسم کی نفرت انگیز کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ہماری ریاست میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔”
یہ واقعہ غزہ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کی عالمی سطح پر گونج اور امریکا میں پیدا ہونے والی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 54 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ تقریباً 90 فیصد آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں 1,200 سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ان میں سے 58 یرغمالی اب بھی قید ہیں جن میں سے ایک تہائی کے زندہ ہونے کی امید ہے، جبکہ دیگر کو جنگ بندی معاہدوں کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔
بولڈر حملے نے امریکی معاشرے میں موجود کشیدگی اور سیاسی و نسلی تقسیم کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے، اور حکام اس واقعے کے محرکات کو سمجھنے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تحقیقات میں مصروف ہیں۔