خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے ہندوکش پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی تریچ میر کو سر کرنے کے 75 سال مکمل ہونے پر ایک اہم منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت نہ صرف مقامی کوہ پیماؤں کو تربیت فراہم کرے گی بلکہ تمام تر اخراجات بھی خود برداشت کرے گی۔ منصوبے کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور 70 کوہ پیماؤں کو تربیت دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
چترال میں واقع تریچ میر کی بلندی 25 ہزار 289 فٹ ہے جو ہندوکش پہاڑی سلسلے میں سب سے بلند چوٹی ہے۔ اسے پہلی بار 1950 میں ناروے کے کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم نے پروفیسر اربی نائس کی قیادت میں سر کیا تھا۔ اس سے قبل 1928، 1935، 1939 اور 1949 میں کوششیں کی گئیں مگر کامیابی نہیں ملی۔
خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم کے مطابق، حکومت نے تریچ میر کی رائلٹی فیس دو سال کے لیے معاف کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد صوبے میں مخصوص سیاحت، خصوصاً کوہ پیمائی کو فروغ دینا ہے تاکہ روایتی سیاحت سے ہٹ کر نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

تریچ میر کوہ پیمائی کے مختلف راستے رکھتا ہے اور اسے سات مختلف بلند چوٹیوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ اس میں سب سے اونچی چوٹی 25 ہزار 289 فٹ ہے جبکہ مشرقی جانب کی 25 ہزار 236 فٹ بلند چوٹی کو 1964 میں، ویسٹ ٹو کو 1974 میں اٹلی کی ٹیم نے اور دیگر چھوٹی چوٹیاں فرانس، چیکوسلاویکیا اور ناروے کی ٹیموں نے مختلف ادوار میں سر کیں۔
سمٹ پوسٹ کے مطابق، تریچ میر کا بیس کیمپ تقریباً 15 ہزار 498 فٹ کی بلندی پر واقع ہے جسے ’بابو کیمپ‘ کہا جاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے جیپ کے ذریعے شاہ گروم تک جایا جا سکتا ہے جبکہ نارویجین روٹ بیرن گلیشیئر سے گزرتا ہے۔
تریچ میر کے نام سے متعلق دو نظریات پائے جاتے ہیں؛ ایک کے مطابق یہ نام چترال کی وادی مولخاؤ کے تریچ علاقے سے منسوب ہے، جبکہ دوسرا نظریہ واخی زبان سے ہے جس میں ’تریچ‘ سائے اور ’میر‘ بادشاہ کو کہا جاتا ہے، یعنی سائے کا بادشاہ۔
مقامی لوک داستانوں کے مطابق، کیلاش قبیلے کے لوگ تریچ میر کو ’کرومائی دیوی‘ کی رہائش گاہ سمجھتے ہیں جو بانجھ خواتین کی مدد کرتی ہے، جبکہ خوس قوم کے نزدیک یہ چوٹی پریوں کا قلعہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جو بھی اسے سر کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔
1991 میں جاپانی ٹیم کے ساتھ تریچ میر کی کوہ پیمائی کرنے والے عطاالحق مرزا نے اس حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ تربیت یافتہ افراد کو چننا ضروری ہے تاکہ وہ دشوار گزار راستوں پر بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی سمت سے شمال کی طرف جانے والا راستہ قدرے آسان سمجھا جاتا ہے، مگر اپر تریچ میر گلیشیئر کے بعد راستہ بہت مشکل ہو جاتا ہے اور بغیر فکسڈ رسی کے ممکن نہیں ہوتا۔
یہ منصوبہ نہ صرف کوہ پیمائی کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ خیبرپختونخوا کی سیاحتی صنعت کے لیے بھی ایک نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔