بلوچستان کے ضلع کیچ میں ریاستی اداروں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں اب ایک نیا حساس تنازع سامنے آیا ہے، جس کا تعلق مبینہ شدت پسندوں کی لاشوں کی حوالگی سے ہے۔
تربت کے قریب ڈننک کے مقام پر (29 اپریل) کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے جانے والے تین افراد کی لاشیں (17 مئی) کو سکیورٹی فورسز نے کیمپ کے قریب واقع قبرستان میں دفنا دیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے لواحقین نے کہا کہ انھیں لاشیں حوالے کرنے سے انکار کیا گیا، جس کے باعث انھوں نے علامتی قبریں بنا کر اپنے پیاروں کی یادگار قائم کر دی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق متوفیوں میں سے ایک کی بہن، فضیلہ بلوچ نے تصدیق کی کہ ان کا بھائی علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ “وہ جو بھی تھا، اب مر چکا ہے، ہمیں صرف اس کی لاش دی جائے تاکہ ہم اس کی مناسب تدفین کر سکیں۔”

رپورٹ کے مطابق لواحقین کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے لاشوں کی حوالگی کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے سی پیک روڈ بند کیا، جسے سکیورٹی اداروں کی مداخلت کے بعد ختم کرنا پڑا۔ لواحقین نے یہ بھی کہا کہ انھیں دھمکیاں دی گئیں اور بالآخر انہوں نے تین علامتی قبریں بنوا کر اس میں مرنے والوں کی ذاتی اشیاء دفن کر دیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ “اگر لواحقین آئیں، ضابطے کی کارروائی مکمل کریں اور مانیں کہ مرنے والا دہشت گرد تھا تو حکومت کو لاشوں کی حوالگی سے کوئی مسئلہ نہیں۔” تاہم ان کا کہنا ہے کہ لاشیں اس لیے نہیں دی جاتیں تاکہ شدت پسندوں کو “گلوریفائی” نہ کیا جائے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن اور ماہر قانون رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق ریاست کو قانون اور بین الاقوامی کنونشنز کے تحت لواحقین کو لاشیں دینے کے حق کا احترام کرنا چاہیے، کیونکہ ایسا نہ کرنا اشتعال، غم و غصے اور بداعتمادی کو بڑھا سکتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے “مکران ریجن” کے کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز کا کہنا ہے کہ “جنیوا کنوینشن سمیت بین الاقوامی قوانین کے مطابق لاشوں کے ساتھ عزت اور احترام کا سلوک کیا جانا چاہیے۔”