پاکستان میں مقیم غیرقانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی وطن واپسی کا عمل تسلسل سے جاری ہے، جس کے تحت اب تک مجموعی طور پر پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ان کے وطن افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔
محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افغان شہریوں کو طورخم اور دیگر سرحدی راستوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ یہ عمل (یکم اپریل 2025) سے باقاعدہ انداز میں جاری ہے، اور اب تک صرف خیبر پختونخوا سے 1500 افغان مہاجرین کو وطن واپس روانہ کیا گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک بھر سے غیر قانونی افغان تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری رہا، جس کے تحت طورخم سرحد کے ذریعے پانچ لاکھ چالیس ہزار افغان شہری واپس افغانستان گئے، جبکہ جنوبی وزیرستان کے انگور اڈا بارڈر کے راستے سات ہزار افغان مہاجرین کو ان کے وطن بھیجا گیا۔

اس کے علاوہ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے تین ہزار، پنجاب سے گیارہ ہزار اور آزاد جموں و کشمیر سے چھے سو غیر قانونی افغان باشندوں کو واپس افغانستان منتقل کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے یہ اقدام سرحدی علاقوں میں امن و امان کے قیام اور غیر قانونی مقیم افراد کی موجودگی کے باعث درپیش سیکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل باوقار اور منظم انداز میں مکمل کیا جا رہا ہے، جس کے دوران واپس جانے والوں کو بنیادی ضروریات جیسے خوراک اور صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ حکام کے مطابق، یہ پالیسی نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے لیے اہم ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ریاست کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی نشاندہی اور ان کی واپسی کو یقینی بنائے۔
محکمہ داخلہ کے حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل کسی قسم کے جبر یا بدسلوکی پر مبنی نہیں بلکہ مکمل انسانی ہمدردی اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ افغان حکومت سے بھی اس سلسلے میں مسلسل رابطہ رکھا جا رہا ہے تاکہ واپسی کے عمل کو مزید منظم اور مربوط بنایا جا سکے۔
واضح رہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی اس واپسی کے عمل کا حصہ ہیں، جنہیں ماضی میں عارضی قیام کے لیے رجسٹر کیا گیا تھا، تاہم اب حکومت کی پالیسی کے تحت ان کی وطن واپسی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔