امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لے لیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مداخلت سے دونوں ممالک کسی بڑے تصادم، یہاں تک کہ جوہری جنگ سے بھی بچ گئے۔
اپنے تازہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اور صورتحال اس نہج تک پہنچ گئی تھی جہاں دونوں جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے دونوں ممالک کو صاف طور پر کہا کہ اگر تم ایک دوسرے پر بم گراتے ہو تو ہم تم سے کوئی تجارتی تعلق نہیں رکھیں گے۔‘‘
ٹرمپ کے مطابق، ان کے اس واضح مؤقف کے بعد دونوں ممالک پیچھے ہٹ گئے اور جنگ فوری طور پر رک گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی دباؤ ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اسی گفتگو کے دوران یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان نایاب معدنیات کی فراہمی کے معاملے پر پیشرفت ہوئی ہے اور چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ کو دوبارہ ان اہم معدنیات کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ چین سے تجارتی معاہدے کے بھی بہت قریب ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں بھی کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ میں کمی اور جنگ بندی میں ان کا کردار کلیدی رہا ہے۔ تاہم، بھارت اس دعوے کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاک-بھارت جنگ بندی مکمل طور پر دوطرفہ فیصلہ تھا، جس میں امریکی صدر یا کسی تیسرے فریق کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’صدر ٹرمپ نے ہم سے ثالثی یا مداخلت کی اجازت نہیں لی۔ وہ خود ہی منظرِ عام پر آنا چاہتے تھے، اور آ گئے۔‘‘
10 مئی کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس وقت بھی ان کے بیان کو بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا تھا، جبکہ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی حکومت کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ ایک بار پھر عالمی سطح پر بھارت کا مؤقف کمزور نظر آیا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے ٹرمپ کے دعوے پر ہر بار ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے، جب کہ بھارتی اپوزیشن اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایسے دعوے امریکی داخلی سیاست اور بین الاقوامی سفارت کاری میں ان کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے خطے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حساس معاملات مزید پیچیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔