ماہرین آج تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پاکستان کی کرکٹ یا سیاست میں کون زیادہ ‘غیریقینی’ نتائج والا کھیل مانا جائے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور عام رجحانات کے برعکس انتخابی نتائج کی وجہ بننے والے ‘الیکٹیبلز’ بھی اس ابہام کی اہم وجہ ہیں۔
انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستانی سیاست اب تک الیکٹیبلز کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کچھ ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ‘الیکٹیبلز’ کا جادو قیام پاکستان سے پہلے بھی سر چڑھ کر بولا کرتا تھا۔
ایک ایسا امیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں الیکشن جیت سکتا ہو، الیکٹیبل کہلاتا ہے۔ ایسے امیدوار اپنے حلقے میں مختلف وجوہات سے اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ برادری، دھڑا، شخصی تاثر، تھانہ کچہری پر رسوخ، معاشی حیثیت، سماجی خدمت، عقیدت یا پھر خوف وہ عناصر ہیں جو ‘الیکٹیبلز’ کی گاڑی کا ایندھن بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق الیکٹیبلز کی دو اقسام ہیں کچھ ایسے ہیں جو روایتی طورپر ہی کسی ایک پارٹی سے وابستہ ہیں اور اسی پارٹی سے الیکشن لڑتے ہوئے ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے اور پھر بھی جیت جاتے ہیں۔
کامیابی ملنے کے بعد وہ ہوا کا رخ یا کوئی مخصوص اشارہ پا کر ‘جیتنے والی’ پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو چھوڑ کر باقی ہر حصے باالخصوص دیہی پاکستان میں الیکٹیبلز موجود رہے ہیں۔ کچھ خاندان تو ایسے ہیں جو بیک وقت مختلف پارٹیز سے جڑے رہتے ہیں۔ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جن کا ایک فرد مسلم لیگ ن میں، دوسرا پیپلز پارٹی اور تیسرا تحریک انصاف میں شامل ہے۔

‘اینٹی اسٹیٹس کو’ ہونے کی دعویدار تحریک انصاف ہو یا روایتی سیاسی جماعتیں کہلانے والی ن لیگ اور پیپلزپارٹی، تینوں اپنی کامیابی کے لیے الیکٹیبلز پر انحصار کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ انتخابی میدان میں الیکٹیبلز پر انحصار نہیں کرتیں۔
سیاست میں الیکٹیبلز کا کردار آج سے نہیں بلکہ آج سے 100 برس پہلے بھی موجود تھا۔ 1937 میں جب پنجاب کے الیکشن ہوئے تو جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعدآل انڈیا مسلم لیگ کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ اگر ہم نےالیکشن جیتنا ہے تو ہمیں اپنی پارٹی میں جاگیرداروں اور سیاسی رسوخ رکھنے والے امیداروں کو جگہ دینی ہوگی۔ 1946 میں مسلم لیگ نے الیکٹیبلز کو پارٹی میں جگہ دی اور کامیاب ٹھہری۔
ایک روایت میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ 1970 کے انتخابات میں نئے لوگ ایوانوں میں آئے۔ بلامقابلہ جیتنے کی خواہش میں ذوالفقار علی بھٹو کو مخالف امیدوار کے اغوا جیسے سنگین الزام کا سامنا رہا، اس کے باوجود یہ پہلا موقع مانا جاتا ہے جب الیکٹیبلز کا مکمل زور قدرے ٹوٹا اور متوسط طبقے کے امیدواروں نے کامیابی سمیٹی۔
پروفیسر محمد صدیق قریشی اپنی کتاب ‘پولیٹیکل کلچر ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ “سنہ 1970 کے الیکشن میں پہلی بار 55 سیٹیں متوسط طبقے کے حصہ میں آئیں”۔ تاہم اُس الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی 52 سیٹوں پر جاگیردار طبقے کا قبضہ رہا۔ پانچ سیٹوں پر سرمایه داروں کی اِجارہ داری قائم ہوئی۔ اس کے بعد 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کو الیکٹیبلز پہ انحصار کرنا پڑا۔
دوسری مرتبہ 2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف سے نئے لوگوں کو موقع ملا لیکن پی ٹی آئی الیکشن نہ جیت سکی۔ 2018 میں اپنے دعوے کے برعکس الیکیبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا اور الیکشن جیتا گیا۔ شعبہ سیاست اور عمرانیات کے ماہرین کو توقع ہے کہ نئے لوگوں کے آنے سے نوجوانوں پہ مثبت اثر پڑے گا اور وہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
2024 میں ہونے والے الیکشن میں مخصوص حالات کی بنیاد پر تحریک انصاف کو اکثر نئے لوگوں پر انحصار کرنا پڑا۔ پارٹی کے مطابق اس الیکشن میں عوام کی طرف سے انہیں زبردست حمایت ملی مگر نتائج تبدیل کر دیے گئے، جس کی وجہ سے وہ حکومت نہ بنا سکے۔
الیکٹیبلز پر ایک تنقید یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ بغیر کسی منشور کے صرف خاندانی پسِ منظر یا جاگیردارانہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر سیاست کر کے عوام کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ ایک ایسا انسان جو بچپن سے سیاست اور عوام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ کسی نئے انسان سے بہتر عوام کے مسائل کو سمجھ کر اسمبلی میں پیش کر سکتا ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 157 لاہور سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حافظ فرحت عباس نے کہا کہ “الیکٹیبلز پاکستان کی سیاست میں ایک پیچیدہ کردار ہیں۔ ایک طرف، یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی عوامی حمایت اور مقامی سطح پر اثر و رسوخ کی بدولت انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کا انحصار اکثر ذاتی مفادات اور روایتی خاندانی اثر و رسوخ پر ہوتا ہے، جو سیاسی عمل کو غیر جمہوری اور محدود کر دیتا ہے۔ یہ عمل جمہوریت کے اصولوں کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ نظریاتی سیاست کو پس پشت ڈال کر شخصیات پر مبنی سیاست کو فروغ دیتا ہے”۔
الیکٹیبلز کے بغیر سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “الیکٹیبلز کے بغیر کامیابی ممکن تو ہے، لیکن یہ ایک مشکل اور طویل المدتی عمل ہوگا۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ بنانا ہوگا اور عوام کے مسائل کے حل پر مبنی پالیسیاں پیش کرنی ہوں گی۔ اگر کوئی جماعت نوجوانوں، متوسط طبقے، اور خواتین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے، تو الیکٹیبلز پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ عوامی بیداری اور نظریاتی سیاست اس تبدیلی کے لیے کلیدی کردار ادا کریں گے”۔
“نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنے سے الیکٹیبلز کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ جب نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے خود سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے، تو وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر نظریاتی سیاست کو فروغ دیں گے۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو طلبہ یونینز کو بحال کرنے، تربیتی پروگرامز منعقد کرنے اور نوجوانوں کو پارٹی کی قیادت میں شامل کرنے جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر نوجوان باشعور اور متحرک ہو جائیں تو الیکٹیبلز کی روایتی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے”۔

جاگیردارانہ اور خاندانی سیاست کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے حافظ فرحت عباس نے کہا کہ “جاگیردارانہ اور خاندانی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے، لیکن یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا۔ اس کے لیے عوامی بیداری، تعلیمی اصلاحات، اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ زمین کی منصفانہ تقسیم اور بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا جاگیردارانہ نظام کی گرفت کو کمزور کر سکتا ہے۔ تاہم، یہ نظام ہماری ثقافت اور سماج میں گہری جڑیں رکھتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا مکمل خاتمہ صرف عوام کے رویوں میں تبدیلی اور مستقل جدوجہد کے ذریعے ممکن ہوگا۔ اگر ہم اپنی سیاست کو عوامی فلاح کے اصولوں پر استوار کریں، تو جاگیردارانہ سیاست ایک دن ختم ہو سکتی ہے”۔
الیکٹیبلز تو قیام پاکستان سے ہی پاکستانی سیاست میں اہم رہے ہیں، کئی انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنے عوامی بیانیے کے باعث ان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن سیاسی اور انتخابی نظام کی پچیدگیوں نے ان کی اہمیت کم نہ ہونے دی۔
پاکستان کی معروف یونیورسٹی لمز میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا خیال ہے کہ ’پی ٹی آئی نے 2024 کے عام انتخابات میں الیکٹیبلز کے مفروضے کو توڑ دیا ہے‘۔
موجودہ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹیبلز پاکستانی سیاست کا اہم مرکز ہیں، سیاست میں الیکٹیبلز کی مداخلت کو ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم کے بعد اب دیگر سیاسی جماعتیں بھی نوجوانوں کو سامنے آنے کا موقع دے رہے ہیں، ماہرین اسے ملکی انتخابی سیاست کے لیے خوش آئند مگر الیکٹیبلز کے لیے پریشان کن قرار دیتے ہیں۔
آپ کے خیال میں پاکستان کی کرکٹ یا سیاست میں کون زیادہ ‘غیریقینی’ نتائج والا کھیل ہے؟