پاکستان میں ترقی کے دعوے اکثر سڑکوں، پلوں اور میٹرو منصوبوں کے گرد گھومتے ہیں، مگر جب عام شہری اور دیہی کسان اپنے حقیقی مسائل کی طرف دیکھتے ہیں تو صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب میں زرعی بحران سے دوچار کسان اور خیبرپختونخوا میں پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم شہری اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ دو مختلف صوبے، مختلف جماعتوں کی حکومت، اور الگ بیانیے رکھنے کے باوجود، عام شہری کی بے بسی میں کوئی فرق نہیں۔ ایک طرف منڈی میں دام نہ ملنے پر فصلوں کو ہل سے روند دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف خواتین اور بچے میلوں کا سفر طے کر کے پانی لانے پر مجبور ہیں
ماہر معاشیات پروفیسر شفاقت علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “شہری انفراسٹرکچر پر توجہ دیہی طبقات کو مزید پسماندہ کر دیتی ہے۔ جب صحت، تعلیم اور پانی جیسے بنیادی شعبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو دیہی آبادی کا معیارِ زندگی متاثر ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہجرت، بیروزگاری اور سماجی ناہمواری کی صورت میں نکلتا ہے جو معاشرتی عدم توازن کو جنم دیتا ہے۔”
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں کسانوں کو جو مشکلات درپیش ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گندم، مکئی، کپاس اور گنے جیسی اہم فصلوں کے لیے سرکاری نرخ تو دور کی بات، کھیتوں سے اٹھنے والی محنت کی بھی قیمت نہیں مل رہی، حکومت کی طرف سے دعوے کیے جاتے ہیں کہ کسانوں کو سبسڈی دی جا رہی ہے جس سے کسانوں کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔
پروفیسر شفاقت علی کا کہنا ہے کہ “حکومت کی طرف کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی وقتی ریلیف ضرور فراہم کرتی ہے۔ لیکن یہ پائیدار زرعی ترقی کی ضمانت نہیں ہے۔ جب تک یہ امداد شفاف طریقے سے اصل حقدار تک نہ پہنچے اس کا مکمل فائدہ ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ انفراسٹرکچر، پانی، اور جدید مشینری تک رسائی کے بغیر محض مالی امداد کسان کے مسائل کا مکمل حل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ایک مربوط زرعی پالیسی درکار ہے۔”
ایک حالیہ منظر میں، ایک کسان نے پیاز کی تیار فصل پر ہل چلا دیا۔ وجہ یہ کہ مارکیٹ میں پیاز کا نرخ اتنا کم ہو چکا تھا کہ فصل اٹھانے پر مزدوروں کی اجرت بھی پوری نہ پڑتی۔ صحافی محمد عمیر نے سوشل میڈیا ایکس پرٹویٹ کیا کہ بھنڈی کی فصل جانوروں کو کھلائی جا رہی ہے، کیونکہ منڈی میں کوئی خریدار نہیں۔ گائے، بھینس، اور بکرے فروخت نہیں ہو رہے، کیونکہ گوشت اور دودھ کی قیمتیں بھی کسان کے منافع کو نگل چکی ہیں۔
“یہ وہی پنجاب ہے جہاں ہر الیکشن میں زرعی انقلاب کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ مگر جب زمین تیار ہوتی ہے، فصل اگتی ہے، تو منڈی خالی اور کسان قرض دار رہ جاتا ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کی کہانی بھی کچھ کم دردناک نہیں۔سینئر صحافی اعزاز سید نے ایکس پر ٹویٹ کیا کہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے علی اصغر خان کے حلقے میں دو سال سے زائد کی حکومت کے باوجود لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔
متعدد علاقوں میں خواتین اور بچے میلوں دور سے پانی بھر کر لاتے ہیں، جب کہ مقامی حکومت یا تو خاموش ہے یا تصویری افتتاحی تقاریب میں مصروف، صاف پانی بنیادی حق ہے یا صرف منشور کی شق؟
جب یہ دونوں مناظر سوشل میڈیا پر سامنے آئے کسان کی پیاز پر ہل چلانے کی ویڈیو اور ایبٹ آباد میں خشک نلکوں کی فوٹیج ، تو ردعمل دو حصوں میں بٹ گیا،مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے کہاکہ کسانوں کا مسئلہ عالمی منڈی کی قیمتوں سے جڑا ہے، مریم نواز تو سبسڈی دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کے پی حکومت پر تنقید ناانصافی ہے، کیونکہ اصل اختیار تو مرکز کے پاس ہے۔
تاہم غیرجانبدار صارفین کا مؤقف ہے کہ مسئلہ صرف ن لیگ یا پی ٹی آئی کا نہیں، بلکہ اُس نظام کا ہے جہاں وعدے جیت جاتے ہیں اور عوام ہار جاتے ہیں۔
ماہر معاشیات پروفیسر عادل نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پانی کی تقسیم میں وفاقی حکومت کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لیکن صوبائی حکومت پر اس کی منصفانہ تقسیم اور نظام کی بہتری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں نہری نظام کی کمی، ذخیرہ گاہوں کا فقدان اور پائپ لائن کا پرانا ڈھانچہ بنیادی مسائل ہیں۔ دونوں حکومتوں کو مل کر جدید اور پائیدار واٹر مینجمنٹ سسٹم پر توجہ دینا ہوگی۔”

خواہ وہ مریم نواز کا ترقی یافتہ پنجاب ہو یا علی اصغر کا بدلتا کے پی، عوام کے بنیادی مسائل پانی، فصل، دام، صحت اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کئی دہائیوں پہلے تھے۔
الیکشن سے پہلے ہر امیدوار دعوے تو کرتا ہے مگر اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتا اس حوالے سے پروفیسر عادل علی نے کہا کہ “پاکستانی سیاست میں عوامی مسائل اکثر دوسرے درجے پر چلے جاتے ہیں اور بیانیہ بازی، جلسے، اور مخالفین پر الزامات اصل مسائل پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ میڈیا میں سنجیدہ مباحثے کے بجائے جذباتی نعرے بازی کو ترجیح دی جاتی ہے جو جمہوری عمل کو کمزور کرتی ہے۔”
یہ تمام منظرنامہ اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں ترقی کے بلند و بانگ دعؤوں کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں۔ زرعی بحران ہو یا پانی کی قلت، یہ صرف حکومتی غفلت نہیں بلکہ نظام کی بےحسی کا نتیجہ ہے۔ جب تک ترقی کا پیمانہ صرف سڑکیں اور پل رہیں گے کسان، مزدور اور دیہاتی عوام مسلسل پسماندگی کا شکار رہیں گے۔ تبدیلی صرف نعروں سے نہیں عوامی مسائل کے عملی حل سے ہی ممکن ہے۔