Follw Us on:

فلسطینی نسل کشی عالمی سازش: اسرائیل-امریکہ گٹھ جوڑ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

چند ہفتے قبل، میں نے “اسرائیل یتیم ہوگیا” کے عنوان سے ایک بلاگ لکھا تھا جس میں میں نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی مجرم وزیرِاعظم نیتن یاہو کے درمیان بڑھتے اختلافات اورسفارتی تنہائی کو موضوع بنایا تھا۔ اس وقت بین القوامی میڈیا اور امریکہ اور اسرائیل کے پے رول پرتجزیہ کاروں نے ایسا ماحول بنایا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ غاصب صیہونی ریاست ایک ایسی پوزیشن میں آ چکی ہے جہاں اس کا دیرینہ حلیف بھی اس کے جنگی جنون سے کنارہ کش ہوتا جا رہا ہے۔ مگر وقت نے یہ ثابت کیا کہ امریکہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف صیہونی ریاست کے ہر جرم میں برابر کا شریک ہے۔ امریکہ نے غزہ میں جاری نسل کشی، تباہی، انسانی المیے اور معصوم فلسطینیوں قتل عام اور نہتے شہریوں پر بےرحمانہ بمباری کے لئے اسلحہ گولہ بارود سمیت ہر وہ مدد فراہم کی جو صیہونی ریاست کو اس قبیح فعل کے لئے درکار تھی۔ امریکہ کا کاردار محض عسکری حمایت نہیں، بلکہ صیہونی ریاست کے لئے ایک ایسی سفارتی چھتری ہے جو اس کو عالمی قوانین سے ماورا کر کے جنگی جرائم کی کھلی چھوٹ دیتی ہے۔ اس نئی تحریر میں میں اسی حقیقت کا جائزہ لینے جا رہا ہوں کہ کس طرح ثالثی کی آڑ میں امریکہ خود فریقِ جرم بن چکا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ میں جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور قتل عام کی کارروائیوں کو 20 ماہ ہوگئے ہیں بعض لوگ اس بات پر یقین کرنے کو مائل ہوتے ہیں کہ امریکہ غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی ریاست کی جاری نسل کش جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں “ثالث” کا کردار ادا کر رہا ہے، حالانکہ یہ بات اب واضح طورپر باعثِ تمسخر ہے جن امریکہ نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرار داد کو یہ کہتے ہوئے ویٹو کردیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ نسل کشی کی ان کارروائیوں میں امریکہ ثالث نہیں بلکہ شراکت دار ہے۔ اگر امریکہ کی طرف سے دی جانے والی ہمہ جہت اور زبردست حمایت نہ ہوتی تو ناجائز صیہونی ریاست غزہ پر نسل کشی کی یہ بدترین کارروائیاں جاری رکھنے کے قابل ہی نہ ہوتا۔

اسی طرح، بعض لوگ اس بات پر بھی یقین کر لیتے ہیں کہ مصر اور قطر بھی اس عمل میں امریکہ کے ساتھ مل کر ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، میرے تجزیے کے مطابق یہ بھی محض دھوکہ ہی ہے۔ چونکہ میڈیا گذشتہ کئی مہینوں سے اسرائیلی مظالم کے خلاف برسرپیکار فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور غاصب صیہونی ریاست کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات کررہا ہے اور ان مذاکرات میں ان تینوں ممالک کے ثالثی کردار کا بار بار ذکر کر رہا ہے، تو یہ فطری بات ہے کہ ہم اس کردار کی نوعیت اور ان مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات پر سوال اٹھائیں۔

ان سوالات کا واضح جواب دینے کے لیے یہ بات یاد رکھنا مفید ہے کہ جب فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو صیہونی ریاست کے خلاف آپریشن “طوفان الاقصیٰ” کی کارروائی کی، تو اسرائیل کی قیادت ایک انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے ہاتھ میں تھی جس کی سربراہی شدت پسند صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کر رہا تھا جو صیہونی ریاست کی تاریخ کی سب سے زیادہ انتہاپسند حکومت سمجھی جاتی ہے۔ اس حکومت کا اتحاد اُن عناصر کے بل پر قائم تھا جو صہیونی منصوبے کے تصوراتی وژن پر سختی سے یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ بات غیر متوقع نہیں تھی کہ صیہونی ریاست نے اس واقعے کو اپنے توسیعی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
لہٰذا، کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی ریاست نے جو جنگ چھیڑی، وہ ردعمل کے طور پر نہیں بلکہ مخصوص مقاصد کے تحت چھیڑی گئی۔ ان میں سے کچھ مقاصد ظاہر کیے گئے، جیسے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کوتباہ کرنا، اسے سیاسی طور پر گرانا، اور یرغمالیوں کو بازیاب کروانا۔ جبکہ کچھ مقاصد پوشیدہ تھے، جن میں غزہ پر دوبارہ قبضہ اور وہاں غیر قانونی صیہونی آبادکاری کا قیام۔ غزہ کو اس کے بائیس لاکھ کے قریب تمام باشندوں سے خالی کرنا، مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلح مزاحمت کا خاتمہ، اور وہاں کے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنا تاکہ الحاق کی راہ ہموار ہو۔
اور چونکہ امریکہ نے پوری طاقت سے غاصب صیہونی ریاست کا ساتھ دیا تاکہ وہ کم از کم اپنے ظاہر کردہ اہداف حاصل کر سکے، اس منصوبے کے تحت ایک اہم کامیابی کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو یہ تھی کہ زیادہ تر عرب ممالک جہاں بادشاہی نطام رائج ہے وہ حماس کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں رکھتے اور وہ مزاحمتی تحریک کو اپنی بادشاہت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اس لئے وہ غزہ پر اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف کھل کر نا کچھ بول سکتے اور نا ہی وہ غزہ پر اسرائیلی حملے سے پہلے کی حالت کی بحالی کے خواہشمند تھے، اس لیے یہ تعجب کی بات نہیں کہ ثالثی کی ابتدائی کوششیں صرف ایک جنگ بندی تک محدود رہیں۔ ایسی جنگ بندی جس سے اسرائیل کو چند یرغمالیوں کی واپسی، مزاحمت کو کچھ قیدی رہا کرنے، اور کچھ انسانی امداد داخل کرنے کا موقع ملا۔ یہ جنگ بندی 30 نومبر 2023 کو حاصل کی گئی۔ لیکن جیسا کہ متوقع تھا، صیہونی جنگی مجرم نیتن یاہو نے جنگ بندی میں توسیع سے انکار کیا اور جنگ کو مزید شدت سے دوبارہ شروع کر دیا تاکہ اپنے تمام اہداف خواہ وہ ظاہر ہوں یا خفیہ ہر ممکن طریقے سے حاصل کر سکے۔ یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ نیتن یاہونے امریکہ اور مغربی ممالک کے بھرپور تعاون اور 20 ماہ سے جاری وحشیانہ بمباری کے باوجود کوئی ایک بھی ہدف ابھی تک حاصل نہیں کیا ہے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ جب اسرائیل کو اپنے کسی بھی ہدف کو عسکری ذرائع سے حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی، تو اس نے امریکہ کو ان اہداف کے حصول کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے پر آمادہ کیا، خاص طور پر ایسے حالات میں جب اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج میں اضافہ ہو رہا تھا اور امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کا آغاز قریب تھا، جس کے ساتھ مختلف نوعیت کے سیاسی دباؤ بھی وابستہ تھے۔ ایسے سیاق و سباق میں، حماس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی اہمیت نمایاں ہوئی اور اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی گئی کہ ان عرب ممالک کی کوششوں سے فائدہ اٹھایا جائے جو امریکہ کے حلیف ہیں، جیسے مصر اور قطر، جو تمام فریقوں کے مفاد میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مصر کے حماس کے ساتھ مضبوط سیکیورٹی تعلقات ہیں، جو خطے کی جیوپولیٹیکل صورت حال کے نتیجے میں پیدا ہوئے، اور جو دونوں فریقوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اختلافات کے باوجود اپنے موقف میں ہم آہنگی پیدا کریں۔
دوسری جانب قطر، حماس کی متعدد قیادتوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دیے ہوئے ہے اور وہ غزہ کو ہر سال مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے، جس سے اسے (قطر کو) سفارتی تحریک اور اثر و رسوخ کی گنجائش حاصل ہے۔

تاہم نیتن یاہو کے اپنے الگ حساب کتاب تھے۔ وہ جنگ کو اُس وقت تک روکنا نہیں چاہتا تھا جب تک کہ وہ “مکمل فتح” حاصل نہ کر لے، کیونکہ کسی بھی قسم کی ناکامی اُس کی حکومت کو گرنے کا خطرہ لاحق کر سکتی تھی۔ اس لیے اس کے ذاتی مفادات، حکومت میں موجود توراتی (انتہا پسند مذہبی) دھڑے کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئے۔ نیتن یاہو یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ بائیڈن کو ایسی کوئی سیاسی کامیابی دے جو اُسے انتخابات جیتنے میں مدد دے، کیونکہ وہ ٹرمپ پر داؤ لگا چکا تھا، جس نے اپنی پہلی صدارت کے دوران اسرائیل کو اتنا کچھ دیا جتنا شاید خود نیتن یاہو نے بھی کبھی خواب میں نہ سوچا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن کی جانب سے جنگ بندی کے لیے کسی قابلِ عمل فارمولے تک پہنچنے کی کوششیں ناکام رہیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی اور نیتن یاہو کے بیشتر خیالات کو تقریباً مکمل طور پر اپنا لیا۔

اسی تناظر میں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بالآخر ایک اصولی معاہدہ بھی امریکی صدارتی انتخابات (نومبر 2023) کے بعد ہی ممکن ہو سکا، اور نیتن یاہو نے معاہدے کی تفصیلات پر اپنی حتمی رضامندی بھی تب ہی ظاہر کی جب امریکی انتظامیہ کے نئے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی، اسٹیو وِٹکوف، نے مداخلت کی، اور یہ رضامندی بھی اُس دن سے محض ایک دن پہلے سامنے آئی جب ٹرمپ نے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا۔ یہ تمام اشارے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نیتن یاہو ابتدا سے ہی ٹرمپ پر داؤ لگا رہا تھا۔

بہر حال، جس معاہدے پر اتفاق کیا گیا، وہ 19 جنوری 2024 کو نافذ العمل ہوا، اور اس میں تین مراحل شامل تھے، جن میں سے ہر مرحلے کی مدت 42 دن مقرر کی گئی۔
اگرچہ اس معاہدے میں جنگ بندی کو مستقل طور پر نافذ کرنے کی شق شامل نہیں تھی، تاہم اس نے ایک ایسا راستہ ضرور کھولا جو مستقل جنگ بندی تک لے جا سکتا تھا۔ یہ معاہدہ تمام اختلافی امور کو حتمی طور پر حل نہیں کر سکا، مگر اس نے تمام فریقوں کو پابند کیا کہ وہ باقی ماندہ مسائل پر بات چیت جاری رکھیں اور ان کے حل میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، معاہدہ ثالث ممالک کو بھی اس امر کا پابند کرتا ہے کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے تسلسل کو یقینی بنائیں، جنگ بندی کو برقرار رکھیں، اور انسانی امداد کی فراہمی کو طے شدہ پروٹوکول کے مطابق جاری رکھیں — حتیٰ کہ اگر یہ مذاکرات طے شدہ مدت سے تجاوز بھی کر جائیں۔

تاہم بعد کے واقعات سے یہ ثابت ہو گیا کہ نیتن یاہو پہلے دن سے ہی اس بات کی منصوبہ بندی کر چکا تھا کہ وہ معاہدے کی پہلی مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جب وہ کافی تعداد میں یرغمالیوں کو واپس لے چکا ہو اس معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا، اور یہی ہوا۔ اس بات کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا کہ نیتن یاہو اور امریکی ایلچی ویٹکوف کے درمیان پہلے سے اس منصوبے پر اتفاق ہو چکا تھا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ویٹکوف نے نیتن یاہو کو سیاسی تحفظ فراہم کیا تاکہ وہ اس معاہدے کی بے حرمتی کر سکے۔ خصوصاً جب نیتن یاہو نے صرف جنگ دوبارہ شروع ہی نہیں کی، بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع کر دیا، ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا جن سے وہ پہلے مرحلے میں پیچھے ہٹ چکا تھا، اور نئی زمینوں پر بھی قبضہ کر لیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کی کھلی چھوٹ دی جس کی تشکیل اور نفاذ میں ٹرمپ انتظامیہ کا کردار تھا بلکہ اس نے نیتن یاہو کو مزید وقت بھی دیا تاکہ وہ میدان جنگ میں وہ کچھ حاصل کرلے جو پہلے نہ کر سکا۔ پھر ٹرمپ نے دنیا کو اس وقت حیران کر دیا جب اُس نے بظاہر ایک غیر منصوبہ بند بیان دیا جس میں اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے مشرقی بحیرۂ روم پر واقع ایک تفریحی ساحلی علاقہ یں تبدیل کیا جا سکے۔ اس بیان نے شدید خدشات اور شکوک کو جنم دیا کہ آیا ٹرمپ واقعی انتہائی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کے ان منصوبوں کی حمایت کرے گا جن کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کرنا ہے نہ صرف غزہ سے، بلکہ مغربی کنارے سے بھی۔ اور اس کے نتیجے میں غزہ پر دوبارہ قبضہ، وہاں یہودی آباد کاری، اور مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی راہ ہموار ہو جائے۔

جب نیتن یاہو میدان میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا، تو ٹرمپ نے دوبارہ مذاکراتی عمل کو بحال کرنے کا سوچا، خاص طور پر جب اس کی سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے کی تاریخ قریب آرہی تھی۔ اس کے بعد اُس نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا، اور حماس کے ساتھ براہِ راست خفیہ مذاکرات کی ایک چینل کھولا، جس کے نتیجے میں عیدان الیگزینڈر ایک امریکی شہری جو دوہری شہریت رکھتا ہے کو بلا معاوضہ رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر طویل المدت جنگ بندی کے امکانات روشن ہونے لگے، جو مستقل جنگ بندی میں بدل سکتی تھی۔

یہاں تک کہ حماس کے ایک اعلیٰ رہنما نے سرکاری بیان میں تصدیق کی کہ ویٹکوف کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کے تحت ایک نسبتاً طویل جنگ بندی کی جائے گی، جس کے دوران کئی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوں گے، اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی راہ ہموار ہو گی، انسانی امداد کا بہاؤ جاری رہے گا، اور تعمیرِ نو کا آغاز ممکن ہو گا۔

تاہم جب نیتن یاہو نے اس معاہدے کی شقوں پر علانیہ تحفظات ظاہر کیے، تو ویٹکوف کو پیچھے ہٹنا پڑا اور وہ ایک پرانی تجویز کی طرف لوٹ آیا، جو یہ وعدہ دیتی ہے کہ “اسرائیل” کو پہلے ہفتے میں تقریباً نصف یرغمالیوں کی رہائی مل جائے گی، بغیر اس کے کہ امریکہ اس بات کی کوئی ضمانت دے کہ جنگ بندی مستقل ہو گی، اسرائیل 7 اکتوبر 2023 سے پہلے کی حدود پر واپس جائے گا، یا انسانی امداد بغیر کسی شرط کے مسلسل جاری رہے گی۔

یہی ہے امریکہ کا سرکاری مؤقف کم از کم اس وقت تک جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی نیتن یاہو کی پالیسی سے مکمل ہم آہنگ ہو چکی ہے؟
نیتن یاہو کا خیال ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں ایسی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے جو خطے کے نقشے کو بدلنے کے لیے کافی ہیں، اور اب صرف ایک کامیابی باقی ہے، جس پر عمل درآمد کی صورت میں “اسرائیل” کو پورے خطے پر مکمل طور پر اپنی بالادستی قائم کرنے کا موقع مل جائے گا، اور وہ ہے ایران کو “محورِ مزاحمت” سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا۔
اس معاملے میں نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان اختلاف ہدف پر نہیں، بلکہ اسے حاصل کرنے کے طریقے پر ہے۔ نیتن یاہو کا ماننا ہے کہ یہ ہدف فوجی حملے کے بغیر ممکن نہیں، اور وہ اس کے لیے امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ٹرمپ، برخلاف اس کے، سمجھتا ہے کہ یہ ہدف دیگر ذرائع سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اب آنے والے چند ہفتے اور مہینے یہ واضح کریں گے کہ خطے کا رخ کس سمت جا رہا ہے۔
جہاں تک حماس اور “اسرائیل” کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات اور ان میں شامل فریقوں کے کردار کا تعلق ہے، تو “طوفان الاقصیٰ” کے آغاز سے اب تک ان مذاکرات کے راستے سے چند اہم حقائق سامنے آئے ہیں، جنہیں ہم درج ذیل نکات کی صورت میں خلاصہ کر سکتے ہیں:
یہ امریکہ ہے جو ان مذاکرات کی قیادت کر رہا ہے اور ان کی سمت کا تعین کر رہا ہے
یہ اسرائیل ہے جو مذاکرات کی رفتار اور ان کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کر رہا ہے؛
جبکہ مصر اور قطر کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، یا تو حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے، یا ایسے حل تلاش کرنے کے لیے جو مذاکرات کے مکمل تعطل سے بچا سکیں، یا اس وقت بچاؤ کے لیے جب بات مکمل بندگلی تک پہنچ جائے۔
جو یہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ کوئی ایسا قدم اٹھائے گا جو اسرائیل کے مفاد میں نہ ہو تو وہ غلطی پر ہے۔
کیونکہ ٹرمپ جو بھی کرے گا، وہ صرف اس صورت میں ہو گا جب اسے یقین ہو کہ اس کا فائدہ اسرائیل کو ہو گا اور یہاں اسرائیل سے مراد محض نیتن یاہو کے ذاتی مفادات نہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس