لاہور ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے تدارک سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران محکمہ ماحولیات سمیت متعلقہ اداروں کو فوری اور عملی اقدامات کی ہدایت جاری کی ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس شاہد کریم نے شہری ہارون فاروق اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر کی، جس میں محکمہ ماحولیات، ایل ڈی اے، جوڈیشل واٹر کمیشن اور دیگر اداروں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ہیوی ٹرانسپورٹ، بڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کو فٹنس اسٹیکرز ترجیحی بنیادوں پر جاری کیے جائیں تاکہ فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔ عدالت نے صنعتی یونٹس میں نصب واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی کارکردگی کا باقاعدہ سروے کرنے کی ہدایت بھی دی تاکہ ان کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر ماحولیاتی حکمت عملی مرتب کی جا سکے۔

سماعت کے دوران جوڈیشل واٹر کمیشن کے رکن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) نے عدالتی احکامات کے باوجود ٹولیٹن مارکیٹ سے پرندوں کو منتقل نہیں کیا، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونا تشویشناک ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے دو لاکھ واٹر میٹرز کی تنصیب کے لیے بجٹ میں رقم مختص کر دی ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے باقاعدہ سرکاری خط آئندہ سماعت میں عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے ٹریفک وارڈنز کو ہیلتھ الاؤنس نہ دینے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ محکمہ فنانس اس حوالے سے رکاوٹ بن رہا ہے۔ عدالت کے مطابق “جنہیں الاؤنس ملنا چاہیے، انہیں دیا نہیں جا رہا۔”
جسٹس شاہد کریم نے ماحولیاتی تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو چکا ہے، ہیٹ ویوز، کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی خطرات ایک ساتھ درپیش ہیں، اس لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
عدالت نے پانی کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہری پانی کی قدر نہیں کرتے، جبکہ سندھ کے عوام سے پانی کی اہمیت پوچھی جا سکتی ہے۔ عدالت نے تمام متعلقہ محکموں کو عملدرآمد رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کے ساتھ سماعت 17 جون تک ملتوی کر دی ہے۔
سرکاری سطح پر محکمہ ماحولیات یا )ایل ڈی اے( کی جانب سے اس سماعت پر فوری طور پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم عدالتی ہدایات کی روشنی میں ان اداروں سے آئندہ پیش رفت رپورٹ طلب کی گئی ہے۔