Follw Us on:

دیرینہ دوست سے جانی دشمن تک کا سفر: ایران-اسرائیل تعلقات کا خونریز انجام یا نئے باب کی شروعات؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 06 15 at 12.45.04 am
ایران نے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ (فوٹو: فائل)

تاریخ کی کتابوں میں شاید کبھی کسی دو ممالک کے درمیان تعلقات نے اتنے حیران کن موڑ لیے ہوں جتنے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان لیے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ یہ دونوں ممالک قریبی دوست اور معاشی اتحادی سمجھے جاتے تھے  اور آج ایسے دشمن کہ ایک دوسرے کے وجود کو خطرہ سمجھتے ہیں۔

13 جون 2025 کی رات ایک بار پھر ان تعلقات میں خونریز باب کا اضافہ کر گئی۔ تہران کی فضائیں گرج اٹھیں، اسرائیلی طیارے ایرانی سرزمین پر بم برساتے رہے اور دنیا دم سادھے اس آگ کے کھیل کو بس دیکھتی رہی۔

ہوا کچھ یوں کے رات کے سناٹے میں اچانک تہران کے اوپر اسرائیلی لڑاکا طیارے نمودار ہوئے۔ اسرائیل نے اس اچانک حملے کو ”آپریشن رائزنگ لائن“کا نام دیا۔ درجنوں طیاروں نے نطنز کے جوہری افزودگی پلانٹ، زیرِ زمین میزائل گودام اور پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈرز کی رہائش گاہوں پر مہلک حملے کیے۔

ان حملوں میں ایران کے دو انتہائی اہم فوجی رہنما  پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی اور ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری  شہید ہوگئے۔ ایران کے لیے یہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ قومی سلامتی پر سیدھا وار تھا۔

اس حملے کے فوری بعد ایران نے اسرائیل کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ تہران سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل نے ایرانی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی ہے، جس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

Israel iran ii
تیل کی قیمتوں میں 14 فیصد تک اضافہ ہوا۔ (فوٹو: گوگل)

ایرانی میڈیا کے مطابق 100 سے زائد ڈرون اسرائیل کی فضاؤں میں داخل کیے جا چکے ہیں، جب کہ ایران کے مختلف پراکسی گروپس کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔

اس حملے کے بعد دنیا بھر میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ اقوام متحدہ نے فوری اجلاس طلب کیا، ایک طرف امریکا نے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی تو دوسری طرف اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دو ماہ قبل میں نے ایران کو معاہدہ کرنے کے لیے 60 دن کا الٹی میٹم دیا تھا، انہیں یہ کر لینا چاہیے تھا۔ آج 61 واں دن ہے، میں نے انھیں بتایا کہ کیا کرنا ہے، لیکن اب ان کے پاس دوسرا موقع ہے۔

 یورپی یونین نے فریقین کو تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔ سعودی عرب، ترکی، چین اور روس سمیت دیگر علاقائی طاقتیں بھی غیر معمولی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔

عالمی منڈیوں میں بھی زبردست ہلچل دیکھی گئی۔ تیل کی قیمتوں میں 14 فیصد تک اضافہ ہوا، جب کہ اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھی گئی۔ ماہرین اسے عالمی معاشی بحران کے خدشے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

ایران اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ 1960 اور 70 کی دہائی میں شاہ ایران رضا پہلوی کے دور میں دونوں ممالک قریبی تجارتی شراکت دار تھے۔ ایران اسرائیل سے ہر سال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدتا، مشترکہ میزائل پروگرامز اور زیرِ سمندر تیل پائپ لائن جیسے منصوبے تشکیل دیے جاتے۔

لیکن 1979 کا اسلامی انقلاب ان تمام تعلقات کا خاتمہ لے آیا۔ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران نے سامراج مخالف اور اسرائیل مخالف نظریہ اپنایا۔ ”مرگ بر امریکا“اور ”لعنت بر یہود“کے نعرے عام ہو گئے۔ یوں ایران نے اسرائیل کے خلاف طویل پراکسی وار کا آغاز کیا۔

ایران نے براہ راست اسرائیل پر حملے کرنے کے بجائے ”محورِ مزاحمت“نامی نیٹ ورک تشکیل دیا، جس میں غزہ میں حماس، مغربی کنارے میں اسلامی جہاد، لبنان میں حزب اللہ، عراق میں شیعہ ملیشیائیں اور یمن میں حوثی باغی شامل ہیں۔ یہ گروہ اسرائیل کے گرد ایک ایسا دائرہ بناتے ہیں، جس سے تل ابیب ہمیشہ دباؤ میں رہتا ہے۔

Israel iran iii
آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران نے سامراج مخالف اور اسرائیل مخالف نظریہ اپنایا۔ (فوٹو: گوگل)

ایران-اسرائیل کشیدگی میں اس وقت نیا موڑ آیا، جب سات اکتوبرکو حماس نے اسرائیل پر اچانک راکٹ حملے کیے، جن میں تقریباً  1100 اسرائیلی شہری مارے گئے۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی اگرچہ حماس نے اسے اپنا آزادانہ فیصلہ قرار دیا۔ ایران نے حماس کی حمایت تو کی مگر براہ راست شمولیت سے انکار کیا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام خطے کے لیے وجودی خطرہ بن چکا تھا۔ آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق ایران کی یورینیم افزودگی 60 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کی حد کے قریب ہے۔ اسرائیل کے مطابق سفارتی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں لہٰذا براہ راست کارروائی ناگزیر ہو گئی۔

اگرچہ امریکا نے حملے میں عملی شرکت سے انکار کیا، لیکن خفیہ رپورٹس کے مطابق واشنگٹن کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا کہ اسرائیل نے انہیں بریفنگ دی تھی۔ ایران کے مطابق امریکا اس پورے کھیل کا پسِ پردہ ماسٹر مائنڈ ہے۔

ایران نے پہلے ہی اسرائیل پر ڈرون حملے کیے ہیں۔ بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور جھرمٹ ڈرونز کا استعمال ممکن ہے۔ حزب اللہ، حماس اور دیگر گروہ مزید سرگرم ہو سکتے ہیں۔ عراق، شام اور یمن میں بھی ایران کے حمایت یافتہ گروہ نئے محاذ کھول سکتے ہیں۔

ایران کے پاس اعلیٰ سائبر صلاحیت موجود ہے، جس سے اسرائیل کا مالیاتی، توانائی اور سکیورٹی انفراسٹرکچر متاثر کیا جا سکتا ہے۔ایران ممکنہ طور پر اپنی یورینیم افزودگی کو مزید تیز کرے گا اور جوہری صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔

ایران اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور دیگر عالمی فورمز پر اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ تیز کرے گا۔ ساتھ ہی عالمی میڈیا میں بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا۔

وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف کا ایرانی صدر کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان، اسرائیل کی بلا اشتعال اور بلاجواز جارحیت پر، حکومت ایران اور برادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی میں کھڑا ہے۔  ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی خالد شہزاد فاروقی نے کہا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس وقت کسی خفیہ یا اعلانیہ اتحاد کا حصہ نہ بنے لیکن فلسطین کے مسئلے پر دوٹوک اور واضح مؤقف اختیار کرے۔ اگر اسرائیل ایران کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔یہ کوئی سازشی مفروضہ نہیں بلکہ اسرائیل کے دفاعی اور سیاسی تھنک ٹینکس کے بیانات اور منصوبوں سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ ہمیں دشمن کی چالوں کو صرف جذبات سے نہیں بلکہ عقل،تاریخ اور زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

Iran israel
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس وقت کسی خفیہ یا اعلانیہ اتحاد کا حصہ نہ بنے۔ (فوٹو: فائل)

ایران کے لیے عراق اور شام اہم فرنٹ لائن ہیں۔ عراق میں ایران نواز گروہ امریکی اور اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ شام میں پہلے ہی ایرانی تنصیبات اسرائیلی بمباری کی زد میں آتی رہی ہیں۔ ایران ان دونوں محاذوں کو مزید فعال کر سکتا ہے۔

تیل کے سب سے اہم تجارتی راستے آبنائے ہرمز پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اگر ایران نے یہاں جہازوں کو نشانہ بنایا تو عالمی تیل مارکیٹ شدید بحران میں آ سکتی ہے۔ امریکا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات براہ راست جنگ میں گھسیٹے جا سکتے ہیں۔

عالمی معیشت پہلے ہی دباؤ میں ہے۔ مہنگائی میں مزید اضافہ، اسٹاک مارکیٹس میں مندی اور سپلائی چینز کا ٹوٹنا یقینی دکھائی دیتا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے امکانات بھی بڑھ چکے ہیں۔

ایران کے پاس اس وقت دو آپشنز موجود ہیں، ایک یہ کہ یا تو وہ فوری اور بھرپور حملہ کر کے دشمن کو سبق سکھائے یا پھر  عالمی ہمدردی حاصل کر کے اخلاقی برتری کے ساتھ عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مضبوط کرے۔تاہم ایک بات طے ہے کہ جنرل حسین سلامی اور میجر جنرل محمد باقری کی شہادت کو ایرانی قوم رائیگاں نہیں جانے دے گی۔

ایرانی عوام کے جذبات سخت ہیں۔ مظاہروں میں شدید غم و غصہ نظر آ رہا ہے۔ اعتدال پسند اور سخت گیر دونوں طبقے اس حملے کا جواب دینے کے حامی ہیں۔ ایران میں اس وقت سیاسی و عسکری قیادت بھی مکمل طور پر متحد نظر آتی ہے۔

پاکستان سمیت پورے مسلم ورلڈ میں اس صورتحال کو گہری نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگر جنگ مزید پھیلتی ہے تو پاکستان کی سفارتی اور اقتصادی حکمت عملی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جنگ کیا رخ موڑ لیتی ہے؟

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس