جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس منصورہ میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مسئلہ کشمیر پر ایک اہم قرارداد منظور کی گئی۔
اجلاس میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر دوٹوک اور غیر مبہم موقف اپنانا ہوگا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کا کوئی بھی حل کشمیری عوام کی مرضی اور شمولیت کے بغیر قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
یہ قرارداد ڈاکٹر محمد مشتاق خان، امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے پیش کی، جس میں زور دیا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے اور ان میں کشمیری عوام کو اصل فریق کی حیثیت سے شامل کیا جائے تاکہ مذاکرات موثر اور قابلِ اعتبار ہوں۔
قرارداد میں خبردار کیا گیا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو دو جوہری طاقتوں کے درمیان تصادم خطے کو تباہی کی طرف دھکیل دے گا، جس کے اثرات دہائیوں تک قائم رہیں گے۔
شوریٰ کے اجلاس میں بھارت کے حالیہ رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ وہ طاقت کے نشے میں چور ہو کر دنیا کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم پاکستان نے بروقت اور موثر جواب دے کر نہ صرف بھارت کو ہزیمت سے دوچار کیا بلکہ عالمی سطح پر اس کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔

شوریٰ نے زور دیا کہ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی سفارتی اور عسکری سطح پر بھرپور وکالت کرنی چاہیے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ یہی ہونا چاہیے کہ بھارت 5 اگست 2019 کے غیر آئینی اقدامات واپس لے اور آرٹیکل 370 اور 35-A کی بحالی کو یقینی بنایا جائے تاکہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ تسلیم کرایا جا سکے۔
شوریٰ نے کہا کہ پاکستان کو عالمی برادری پر زور دینا چاہیے کہ اگر عالمی امن، انصاف اور اصولوں کا احترام کرنا ہے تو کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دیا جائے۔ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے، فوجی محاصرہ ختم کرے، قیدی کشمیری قیادت کو رہا کرے، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو ریاست میں رسائی دے، اور سندھ طاس معاہدے کی مکمل پابندی کرے۔
جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ موجودہ صورتحال میں کوئی نرمی نہ دکھائے اور جموں و کشمیر کی آزادی کے اس نادر موقع کو ضائع نہ ہونے دے۔