Follw Us on:

مفادات کے سائے میں اصولوں کی شمع: کیا ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Whatsapp image 2025 06 15 at 10.57.55 pm (1)
ملکوں کے درمیان نہ ہمیشہ دوستی ہوتی ہے اور نہ سدا دشمنی برقرار رہتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت کے جرات مندانہ مؤقف کو ساری عرب دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔ اسی طرح سعودی ولی عہد کی جانب سے ایرانی صدر کے ساتھ رابطے کو ایک مثبت اور نتیجہ خیز تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

ملکوں کے درمیان نہ ہمیشہ دوستی ہوتی ہے اور نہ سدا دشمنی برقرار رہتی ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی تاریخ بھی نشیب و فراز سے بھری اور تلخ اور شیری ادوار سے عبارت ہے۔

آج نامور سیاسی کارکن ،مفکر اور استاد عمار علی جان کا ایران کی حمایت کے حوالے سے انتہائی پر مغز ،سیاسی اور نظریاتی بصیرت سے بھرپور اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے اصولی دلائل سے بھرپور تحریر نظر سے گزری۔ ان کے والد ڈاکٹر خالد جاوید جان سے ہماری درینہ یاد اللہ ہے۔ ہم نے ساتھ مل کر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر تحقیقی ڈاکومنٹری کے پروجیکٹ پہ کام کیا تھا ۔ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت کہ یہی نتائج ہونے چاہیے تھے۔

دوسری جانب تنگ نظری اور فکری جہالت سے آلودہ بے شمار لوگ پاکستان ایران تعلقات میں ماضی کی کچھ مثالوں کو حوالہ بنا کر بین ا لسطور پاکستان کی پالیسیوں میں مین میخ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جھوٹی سچی مثالوں سے ایک مخصوص سوچ اور نقطہ نظر کو پڑھنے اور سننے والوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ دو تین دہائیوں میں فرقہ وارانہ ابھار اور اس کے رد عمل کے زیر اثر ایران کی کئی پالیسیاں پاکستانی مفاد کے برعکس بھی رہی، یہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حمایت کا معاملہ نمایاں ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہم نے بھی اپنے علاقائی، مالی اور سٹریٹیجک مفاد میں بہت سارے ایسے فیصلے کیے جو ایران کے لیے شاید زیادہ پسندیدہ نہیں تھے
مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔

ملکوں اور ریاستوں کے تعلقات میں بہت ساری باتیں پردے کے پیچھے ہو رہی ہوتی ہیں۔ وعدے وعید ،خاموش کشمکش اور غیر اعلانیہ ایک دوسرے کے مفاد کی حفاظت جیسے امور شاید کبھی منظر عام پر نہیں اتے۔ مگر ان سے دو طرفہ تعلقات پر مثبت یا منفی اثر ضرور پڑتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بھی تاریخی طور پر یہی کچھ ہوتا رہا۔

پاکستان بننے کے بعد جب ہماری ایئر فورس کو طیاروں کی ضرورت پڑی تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے راجہ غضنفر علی خان جو کہ ایران میں پاکستانی سفیر تھے کہ ذریعے ایرانی حکومت سے درخواست کی تھی۔

یہ واقعہ اردو کے نامور ادیب راشد الخیری کے پوتے اور پاکستان فارن سروس کے اہلکار ساعد راشد الخیری نے اپنی کتاب “پرانی دلی سے نئی دنیا کا سفر “میں بیان کیا ہے۔ وہ اس دور میں تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے میں شامل تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ” 1948 میں پاکستان کو فضائیہ کے لیے ہوائی جہازوں کی ضرورت تھی۔ برطانیہ سے ہم نے اس بارے میں مذاکرات کیے لیکن ایک قباحت تھی کہ وہاں سے جہازوں کی ترسیل میں کوئی تین چار سال لگنے تھے اور پاکستان کو فوری ضرورت تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ ایران نے کچھ جہازوں کا ارڈر دے رکھا ہے جو چند مہینے بعد اسے ملنے والے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے راجہ صاحب کو خاص طور سے اس کام کے لیے شاہ ایران کے پاس بھیجا تھا کہ وہ اپنے جہاز ہمیں دے دیں اور جن جہازوں کے ارڈر ہم دے رہے ہیں وہ بعد میں خود لے لیں، ایرانی فوراً راضی ہو گئے ۔ ایران نے ہماری یہ کیسے مدد کی تھی جب ہمیں کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا۔

ایران کے اندر مذہبی حکومت کے قیام بعد میں عراق کے ساتھ جنگ اور امریکہ کے ساتھ اس کی کشمکش ہمارے اور ایران کے تعلقات پر اثر انداز ہوتی رہی۔ انہی مصلحتوں کے باعث پاکستان کو ضیا الحق کے دور میں ایران کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی کا وعدہ کر کے پیچھے ہٹنا پڑا۔

اس کی تفصیل سابق چیف اف ارمی سٹاف جنرل اسلم بیگ کے انٹرویو پر مشتمل کتاب “اقتدار کی مجبوریاں” میں بیان ہوئی ہے۔

جنرل اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ “ایران عراق جنگ کو دو سال ہو چکے تھے۔ اس دوران مجھے ایران سے جنگی ہتھیاروں کے سپیئر پارٹس اور دوسرے سامان کی ایک فہرست ملی جس کی ایران کو شدید ضرورت تھی۔ میں نے وہ فہرست جنرل ضیا کو پیش کی اور انہوں نے اس پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔

کچھ عرصہ بعد ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسجاانی پاکستان کے دورے پر ائے۔ ان کے انے کا بڑا مقصد اس معاملے پر پیش رفت کا جائزہ لینا تھا۔ ہماری جانب سے وعدے تو کیے گئے لیکن اس کی پاسداری نہیں کی گئی، جناب رفسنجا نی کے رفقہاء میں سے ایک نے اپنی ضرورت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ”دوست آں باشد کہ گیرو دست دوست۔۔در پریشاں حالی و درماندگی”
لیکن افسوس کہ امریکہ کی خوشنودی میں ہم نے ایران کے ساتھ حق دوستی ادا نہ کیا۔ میں نے دونوں شخصیات کی کتابوں سے حرف با حرف عبارت نقل کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بے شمار پڑھنے والوں کے علم میں اس کے برعکس مثالیں بھی ہوں۔

مقصد یہ بتانا ہے کہ اسی طرح کی ازمائشیں اور ضرورتیں قوموں کے درمیان دوستی کے رشتے استوار کرتی ہیں اور پہلے سے موجود کدورتوں کو دور کرتی ہیں۔

فرض کریں کہ ہمارے درمیان ماضی کی یہ ساری باتیں نہ بھی موجود ہوں تب بھی اس جنگ میں دشمن کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ،اخلاقی اور اصولی بنیادوں پر ایران کا ساتھ دینا ہی انسانیت کا تقاضا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس