رواں ماہ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے حکومت کے بقول “آپریشن رائزنگ لائن” شروع کیا۔ یہ ایک بڑے پیمانے کا جوابی حملہ تھا، جس میں اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے ایران میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔
اس آپریشن میں بنیامن نیتن یاہو نے ایرانی جوہری سائٹس اور فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا، اسرائیل کے دعوے کے مطابق سترہ سے زیادہ اعلیٰ عہدے دار ہلاک ہوئے، جن میں IRGC کے سربراہ جنرل حسین سلامی اورچیف آف اسٹاف محمد باقری شامل تھے۔
ایران نے فوری طور پر اپنا جواب دیا، ملینوں بالٹک میزائل، ڈرونز اور توپ خانے استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب نشانہ بازیاں شروع کر دیں۔
ابتدائی ڈیٹا کے مطابق ایران نے 200 سے زائد میزائل داغے، ان میں سے کئی نے اسرائیل کے دفاعی نظام ‘آئرن ڈوم’ کو چیرتے ہوئے شہری و فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ تل ابیب، حیفا، ریوووٹ، بات یام اور تمرا جیسے شہروں میں راکٹ حملوں سے 13سے 14 افراد ہلاک، 300سے 380 زخمی، جب کہ متعدد افراد لاپتہ ہو گئے ۔

دوسری جانب اسرائیل کی طرف سے کیے گئے حملوں میں ایران کے 70سے 138 افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں ملی ہیں، جن میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔
ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی حملوں سے تہران کے علم و توانائی کے مراکز، گیس فیلڈز، مساجد اور دیگر اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل کی جانب بھی توانائی کے اہم مراکز کو ہدف بنانے کا مقابلہ کیا گیا اور بات یام کے ایک رہائشی بلاک کو تباہ کر دیا گیا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سول ماسٹرڈ ڈپلومیسی تجزیہ کار ڈاکٹر رابعہ حسین کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایران اور اسرائیل نے اتنے بڑے پیمانے پر براہِ راست جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ خطے کے لیے زلزلے جیسا جھٹکا ہے، جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں صرف میزائل اور طیارے مدِمقابل نہیں بلکہ سائبرحملے، سمندر میں بحری جنگ اور شعلہ بیاں پروپیگنڈا بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔

خیال رہے کہ اس تیسری راونڈ کی جنگ کے آثار 15 جون کو تب زیادہ واضح ہوئے، جب ایران نے ایک نیا میزائل حملہ کیا، جس میں کم از کم چار خواتین تمرا میں ہلاک ہو گئیں اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اگلے دو گھنٹوں میں بات یام، ریحووٹ، تل ابیب اور یروشلم میں مزید حملے ہوئے، جن سے تین افراد ہلاک، 125 زخمی اور 35 لاپتہ افراد رپورٹ ہوئے۔
تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) خالد محمود نے کہا ہے کہ اسرائیل اور ایران میں ہونے والی یہ جنگ اب روایتی جنگ نہیں رہے گی، یہاں ہاتھا پائی سے زیادہ ہمیں جدید جنگ کے نمونے نظر آ رہے ہیں، ہیبرڈ وار، ڈرون بیٹریز اور بغیر پائلٹ حملے، جو خطے کے مستقبل کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
غیر ملکی تجزیہ کار بھی خبردار کر رہے ہیں کہ یہ جنگ عالمی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تیسری جنگِ عظیم کی ابتدا ہو سکتی ہے، جیسا کہ سرچشمائی سطح ہرمز کو بند کرنے اور توانائی کے نرخوں میں اڑان کے ثبوت ہیں۔ درحقیقت تیل کی قیمتوں میں 9 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، جب کہ سعودی اسٹاک مارکیٹ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
عالمی طاقتوں نے فی الوقت خاص دباؤ نہیں دیا، ابتدا میں امریکانے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا براہِ راست عمل دخل نہیں لیکن اگر اس کے مفادات کو خطرہ ہوا تو شدید ردعمل ہو گا، مگر بعد میں امریکی صدر نے اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل امن معاہدہ کریں گے اور میں اسے یقینی بناؤں گا۔ برطانیہ نے اپنے شہریوں کو اسرائیل نہ جانے کی ہدایت جاری کی، عالمی برادری امن کی کوششوں میں تیزی لا رہی ہے مگر عملی اقدامات تاحال نہیں ہو سکے۔

ماہرِ دفاع امتیاز یاسین نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ صرف دو ملکوں کے مابین نہیں رہے گی کیونکہ اس میں خطے کے سبھی بڑے کھلاڑی شامل ہیں۔ ایران کے اتحادی چین، روس اور یمن کے حوثی میز پر ہیں، جب کہ امریکا، یورپ اور خلیجی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ اگر یہ جنگ مزید پھیلی تو خلیج فارس کے راستوں، آبی جہازرانی اور عالمی معیشت بری طرح متاثر ہوں گے۔
اس جنگ نے ایک حقیقت واضح کر دی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب دوبارہ کےلیے روادار بن گیا ہےاور اب سوال یہ نہیں کہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ یہ کب ختم ہو گی؟ کس شدت سے ختم ہو گی؟ اور دنیا اس کے بعد کا کیا نقشہ کھینچے گی؟
خیر جو بھی ہو فی الحال حالات بے قابو دکھائی دیتے ہیں اور انسانی جانوں کا نقصان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ خطے کے لاکھوں شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے اور دنیا خاموشی سے اس شاہکارِ فطرت کا مشاہدہ کر رہی ہے۔