ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پانچویں روز بھی برقرار رہی، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی شہریوں سے تہران فوری طور پر خالی کرنے کی اپیل کی ہے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران نے جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق ایک مجوزہ معاہدہ مسترد کر دیا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کینیڈا میں جاری (جی-7) سربراہی اجلاس میں شریک عالمی رہنماؤں نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا, “ایک پیشکش کی گئی ہے، خاص طور پر جنگ بندی کے لیے اور وسیع تر مذاکرات کے آغاز کے لیے۔ میرے خیال میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین کیا ردعمل دیتے ہیں۔”

صدر ٹرمپ نے پیر کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر کہا، “ایران کو وہ ’معاہدہ‘ قبول کر لینا چاہیے تھا جو میں نے پیش کیا تھا۔ یہ انسانی جانوں کا ضیاع اور افسوسناک ہے۔ سادہ لفظوں میں، ’ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔ میں نے بارہا کہا! ہر کسی کو فوراً تہران خالی کر دینا چاہیے۔‘”
ایرانی حکام کے مطابق، پانچ دنوں کے دوران 224 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر شہری شامل ہیں، جبکہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے چوبیس شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بتسلیل سموتریچ کے مطابق ایرانی حملوں کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایران نے اومان، قطر اور سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں۔ اس کے بدلے میں ایران جوہری مذاکرات میں نرمی برتنے پر آمادہ ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کہا: “اگر صدر ٹرمپ واقعی سفارت کاری میں سنجیدہ ہیں اور اس جنگ کو روکنا چاہتے ہیں تو آئندہ اقدامات بہت اہم ہوں گے۔ اسرائیل کو اپنی جارحیت روکنی ہوگی، بصورت دیگر ہمارے جوابی اقدامات جاری رہیں گے۔”

ایران کا مؤقف ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا اور اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا رکن ہے، جبکہ اسرائیل اس معاہدے کا حصہ نہیں اور عمومی طور پر مانا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، تاہم اسرائیل اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا۔
پیر کو اسرائیل نے ایرانی ریاستی نشریاتی ادارے اور یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر فضائی حملے کیے۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے بی بی سی کو بتایا کہ نطنز کا پلانٹ شدید نقصان کا شکار ہوا ہے اور وہاں تقریباً پندرہ ہزار سینٹری فیوجز تباہ ہو گئے ہیں۔ فورڈو پلانٹ کو کم نقصان پہنچا ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات، جو 15 جون کو اومان میں ہونے تھے، جنگی صورتِ حال کے باعث منسوخ کر دیے گئے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کی فضائی حدود پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور وہ اپنی کارروائیاں مزید تیز کرے گا۔
دوسری جانب، چین نے اپنے شہریوں کو اسرائیل سے زمینی راستوں کے ذریعے جلد از جلد نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔ اسرائیلی فضائی حدود بند ہونے کے باعث یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
امریکی تجاویز پر ایران یا اسرائیل کی جانب سے حتمی ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں جنگ بندی یا مذاکرات کی کوئی شکل سامنے آ سکتی ہے، بشرطیکہ فریقین کشیدگی کم کرنے پر آمادہ ہوں۔