Follw Us on:

سفارتی توازن یا خطرناک خاموشی، ایران-اسرائیل تنازع پر پاکستان کی پوزیشن کیا ہونی چاہیے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
Whatsapp image 2025 06 20 at 12.41.20 am
پاکستان غیر محتاط رویہ اپنائے یا کسی فریق کے دباؤ میں آکر معاملہ بگاڑ لے۔ (فوٹو: فائل)

ایران-اسرائیل تنازع  نے پاکستان کو ایک ایسے سفارتی دوراہے پر لا کھڑا کردیا ہے، جہاں ‏ایک طرف ایران کے ساتھ مذہبی، تاریخی اور سیکیورٹی کے مضبوط تعلقات ہیں، جب کہ دوسری جانب سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور امریکا کے ساتھ معاشی و دفاعی روابط پاکستان کے لیے اہم ستون ہیں۔ اس پیچیدہ جغرافیائی سیاق و سباق میں پاکستان کو اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، مگر کیسے؟

13 جون سے شروع ہونے والے اس تنازع کا آج آٹھواں روز ہے، جس میں اسرائیل نے ایران کے جوہری و فوجی تنصیبات پر حملہ کیا تو جواب میں ایران نے بھی بھرپور جوابی حملے کیے۔

 اسرائیل نے ایران کے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر اور نیوکلیئر سائٹوں پر فضائی حملے کیے، جن میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ بدلے میں ایران نےسینکڑوں ڈرونز اور  بیلسٹک میزائلوں کے حملے کیے، بعض اسرائیلی شہری  تک متاثر ہوئے ۔ اب صورتحال انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیشن میں شرکت کی اور اسرائیل کی کارروائیوں کو بلااشتعال، ناجائزاور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے، اسرائیلی حملے صرف ایران ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

Supreme leader
اسرائیل نے ایران کے جوہری و فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ (فوٹو: فائل)

وزیرِاعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سے ٹیلیفونک گفتگو کی اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ناجائز قرار دیا۔

پاکستان نے آئیر اور زمینی سرحدیں ایران کے ساتھ جزوی طور پر بند کیں، اس مقصد سے کہ کسی ناخوشگوار صورتحال کی صورت میں نقل و حرکت پر مکمل کنٹرول ہوسکے ۔ دفترِ خارجہ نے ایک کرائسس مینجمنٹ یونٹ تشکیل دیا، جس کے ذریعے پاکستانی طلبہ و زائرین کو ایران سے محفوظ واپس لایا گیا۔

پاکستان کی فوجی قیادت اس وقت نہایت محتاط ہے کیونکہ مغربی سرحد کے ساتھ بگڑتی صورتحال بے گھر افراد، دہشت گردوں اور منظم انتہا پسندوں کے لیے مواقع فراہم کر سکتی ہے ۔ ایران کے اندر حالات بگڑے تو پاکستانی علاقے میں بلوچ علیحدگی پسند، جیش العدل اور دیگر بلوچ/سنّی عسکری تنظیمیں اس صورتحال کو اپنی سرگرمیاں بڑھانے کا ہدف سمجھ سکتی ہیں ۔ پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات دونوں سے نمٹنے کے لیے اپنی انسدادِ دہشت گردی مہم تیز رکھنی ہوگی۔

پاکستان نے معتبر سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے نہ ایران کو چھوڑا، نہ اسرائیل کو تسلیم کیا، بلکہ ایک اصولی مؤقف کی بنیاد پر خود کو امن و قانون کا علمبردار قرار دیا ۔

پاکستان نے امریکا اور چین سے دونوں سمتوں میں تعاون جاری رکھا ہوا ہے، پاکستان کو سعودی اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ روابط پر خاصی نگاہ رکھنی ہوگی، اس خطے میں سعودی عرب اور امارات کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سفارتی مفادات کو دھیان میں رکھ کر توازن قائم رکھا جائے۔

سرحدی تحفظ، انسدادِ دہشت گردی اور بلوچستان و خیبرپختونخوا میں جاری آپریشن Azm-e-Istehkam کو تیز کیا جائے تاکہ اندرونی خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

Israel iran iii
پاکستان نے معتبر سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ حمزہ حسن سیال نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی سفارتی حکمت عملی واقعتاً متوازن، جامع اور عملی ہو، تو وہ خطے میں امن کا علمبردار بن سکتا ہے۔ اس سے بین الاقوامی مقام بہتر ہوگا، جب کہ اندرونی داعشی و عسکری عناصر کا بھی خاتمہ ممکن ہے۔

واضح رہے کہ اگر پاکستان غیر محتاط رویہ اپنائے یا کسی فریق کے دباؤ میں آکر معاملہ بگاڑ لے، تو یہ داخلی عدم استحکام، اقتصادی مشکلات اور علاقائی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔

اگر بات کی جائے موجودہ صورتِ حال کی تو پاکستان فی الوقت ایک محتاط لیکن اصولی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ پاکستان نے ایران کو تنقید یا فرانبداری کی بجائے بین الاقوامی قانون اور خطے کی سلامتی کی بنیاد پر حمایت فراہم کی ہے۔اسرائیل کے حملوں کی مذمت، جب کہ کسی بھی عسکری فعل سے اجتناب کیا گیا ہے، اندرونی امن کے تحفظ اور بیرونی توازن کی کوششوں کے ذریعے پاکستان اپنی خودمختاری کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

ایڈووکیٹ حمزہ حسن کہتے ہیں کہ ابھی آگے کا راستہ مشکل ہے، اسرائیل اور ایران میں کب تک تنازع بڑھے گا، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ اس کا انحصار عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکا، روس، چین اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر ہے۔پاکستان کو سفارتی دباؤ سے بچاتے ہوئے قومی مفاد اور علاقائی امن کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کو اس دوراہے پر فوقیت دینی ہوگی۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک واضح پالیسی اپنانی ہوگی اور ایران کی حمایت کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔

Israel iran
پاکستان کو سفارتی دباؤ سے بچاتے ہوئے قومی مفاد اور علاقائی امن کو یقینی بنانا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے فیلڈ مارشل و چیف آف آرمی اسٹاف میجر جنرل سید عاصم منیر اس وقت امریکی صدر کی دعوت پر امریکی دورے پر ہیں، جہاں کل ان کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں میڈیا نمائندگان کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس دورے پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

ایڈووکیٹ حمزہ حسن سیال کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل کا دورہ جہاں مختلف سوالات اور حالیہ تناظر میں پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، وہیں یہ ماضی میں ہونے والے کچھ دوروں کی یاد بھی دلاتا ہے، جو کہ وقتی طور پر منافع بخش مگر بعد میں ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے۔ اب اس دورے کے نتائج کیا نکلتے ہیں یہ تو جلد واضح ہو ہی جائے گا، مگر پاکستان کو چاہیے کہ وہ خود کو اس جنگ میں جھونکنے سے گریز کرے۔

پاکستان اس وقت سنگین مسائل سے دو چار ہے۔ گزشتہ ماہ میں انڈیا کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں اور بلوچستان میں دہشتگرد عناصر کی وجہ سے پاکستان فلحال اس حالت میں نہیں کہ وہ کسی ایک ملک کا ساتھ دے کر خود کو پرائی آگ میں جھونک دے۔ اگرچہ عاصم منیر کا دورہ امریکا طے کرے گا پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا کہ پاکستان اس جنگ میں کھل کر ایران کا ساتھ دیتا ہے یا پھر امریکا کی پشت پناہی میں کوئی اور فیصلہ کرتا ہے۔

Author

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس