ضرورت ہے کہ ہم جذبات کے ہجوم سے نکل کر عقل، دین اور آئین کی روشنی میں سچائی کو سمجھنے اور بیان کرنے کی جرات کریں۔ سینیٹر پرویز رشید کی سینیٹ میں حالیہ تقریر اور مسلم لیگ ن کی خاموشی نے ایک بار پھر اس زخم کو چھیڑا ہے جو برسوں سے پاکستان کی نظریاتی اور آئینی بنیادوں پر حملہ آور ہوتا رہا ہے۔
ان کی گفتگو بظاہر انسانی ہمدردی، انصاف اور مساوات کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی لیکن اس کے بین السطور میں ایک ایسی فکری گمراہی چھپی تھی، جو نہ صرف پاکستان کے آئین سے متصادم ہے بلکہ اُمت مسلمہ کے متفقہ عقائد کی بھی نفی کرتی ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ قادیانی مسئلہ محض کسی مخصوص فرقے یا اقلیت کے ساتھ مذہبی امتیاز کا معاملہ نہیں بلکہ یہ اسلام کے بنیادی عقیدے”عقیدہ ختم نبوت“پر حملہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس پر تمام مکاتبِ فکر کا اجماع ہے اور جس کی حفاظت کیلئے صدیوں سے علماء،صوفیاء اور عام مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں۔
سینیٹرپرویز رشید صاحب کا کہنا کہ یہ تمام قوانین جن کی آڑ لے کر شہریوں کی زندگیوں کو تنگ کیا جاتا ہے، ان کو ختم کر دینا چاہیے“نہایت خطرناک بیانیہ ہے جو بادی النظر میں آئینی بغاوت کے مترادف ہے۔ ان قوانین کا وجود کسی ایک فرد یا گروہ کی خواہش کا نتیجہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے علماء،سیاستدانوں،ججوں اور عوام کی اجتماعی دانش کا نچوڑ ہے۔
1974ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے،ایک طویل بحث اور قومی اتفاق رائے کے بعدقادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اس قانون کے پیچھے محض کوئی سیاسی دباو یا وقتی حالات نہیں تھے بلکہ ایک صدی سے زیادہ کی علمی،دینی اور قومی محنت شامل تھی، ادیانی مسئلہ بنیادی طور پر ایک نظریاتی مسئلہ ہے۔
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا اساسی عقیدہ ہے،جیسا کہ سورة الاحزاب کی آیت 40 میں فرمایا گیا(ترجمہ: محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔)یہ عقیدہ صرف ایک آیت پر مبنی نہیں بلکہ قرآن،حدیث،اجماع امت اور عملی تاریخ میں راسخ و مسلم ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے متعدد احادیث میں اس عقیدے کی وضاحت فرمائی،جیسا کہ صحیح بخاری،مسلم،ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں بکثرت روایات موجود ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔قادیانی جماعت،جس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی تھے،نہ صرف خود کو مسلمان کہتے ہیں بلکہ مرزا کو نبی اور رسول مانتے ہیں ۔
اگرچہ وہ اپنے دجل و فریب سے گاہے نبی،گاہے مجدد اور گاہے ظلّی نبی جیسے الفاظ استعمال کرتے رہے لیکن ان کی کتابیں اور تحریریں ان کے دعوی نبوت اور اسلام دشمن افکار سے بھری پڑی ہیں۔ مرزا قادیانی نے اپنی کتب میں جہاں اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا وہیں اس نے مسلمانوں کو کافر،دجال اور جہنمی کہا۔”آئینہ کمالات اسلام“،”کشتی نوح“، ”حکم العدل“، ”تذکرہ“ اور ”ملفوظات“ جیسے قادیانی مراجع میں وہ جملے موجود ہیں، جن میں امت مسلمہ کو برا بھلا کہا گیا۔
مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ جو شخص میرے دعویٰ کو رد کرتا اور مجھے کافر سمجھتا ہے،وہ خود کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب ایک گروہ جو نہ صرف عقیدہ ختم نبوت کا منکر ہو بلکہ خود کو نبی کہے اور مسلمانوں کو کافر کہے،وہ امت مسلمہ کا حصہ کیسے ہو سکتا ہے؟اور جب ایسے گروہ کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو اس پر اعتراض چہ معنی دارد؟
سینیٹر پرویز رشید کی مثال کہ ایک پولیس اہلکار نے کسی گھر میں قربانی کے گوشت پر سوال کیا،ایک انفرادی فعل ہو سکتا ہے۔اگر واقعی کوئی ناانصافی ہوئی ہے تو اس کا حل انفرادی سطح پر تادیب و اصلاح ہے نہ کہ پورے قانونی ڈھانچے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرنا۔ آئین اور قانون انفرادی جرائم کا علاج نہیں ہوتے بلکہ اجتماعی نظم کو قائم رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں یہ کہنا کہ کسی کو اس کے عقیدے کی بنیاد پر گوشت دینے یا نہ دینے کی بحث پیدا کی گئی،دراصل اصل مسئلے کی پردہ پوشی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت بار بار آئینی اور قانونی حدود کو پامال کرتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں،اپنی عبادت گاہوں کو ”مساجد“ کا نام دیتے ہیں،اذان دیتے ہیں،اسلامی شعائر استعمال کرتے ہیں جو کہ 1984ء کے آرڈیننس XX کے تحت جرم ہے۔
قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے،نہ ہی اسلامی شعائر کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنی اقلیتی حیثیت کو تسلیم کر کے اپنی علیحدہ شناخت رکھیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن وہ اقلیت تسلیم ہونے پر تیار نہیں، یہی وہ نقطہ ہے جو فساد کی جڑ ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں ہندو، عیسائی،سکھ اور دیگر اقلیتیں اپنے تہوار مناتی ہیں،اپنی عبادت گاہوں میں اپنی عبادات کرتی ہیں اور ریاست ان کے تحفظ کی ضامن ہے۔ کسی کو کبھی یہ اعتراض نہیں ہوا کہ کرسمس منائی جا رہی ہے یا دیوالی پر خوشی ہو رہی ہے لیکن اگر کوئی عیسائی”نماز“ پڑھنے لگے اور اپنے چرچ کو ”مسجد“کہنا شروع کر دے تو جھگڑا ہو گا اور ہونا بھی چاہیے۔
قرآن مجید میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تو ہے لیکن عقیدے کی گمراہی کی اجازت نہیں۔ قادیانی اگر واقعی اقلیت ہوتے تو اپنی عبادات،شعائر اور دینی شناخت الگ رکھتے لیکن ان کا اصرار یہی ہے کہ مسلمان کہلائیں اور پھر وہ کام کریں جو اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں۔
پرویز رشید صاحب کی تقریر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اس تمام تر گمراہی کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں،جیسے کہ کوئی معصوم اقلیت ظلم کا شکار ہو رہی ہو۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو مغربی این جی اوز،ایمنسٹی،ہیومن رائٹس واچ اور اسلام دشمن قوتیں برسوں سے دہراتی آ رہی ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم ہو رہا ہے۔
اگر حقیقت میں کسی پر ظلم ہو تو ضرور اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن قانون کو ختم کر کے اس ظلم کا حل تلاش کرنا،عقل و فہم کا تقاضا نہیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سینیٹ جیسے باوقار ادارے میں ایک سینیٹر کھلے عام آئینی قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور کوئی باز پرس نہیں ہو رہی۔
اگر کوئی مذہبی رہنما آئین کے خلاف بات کرے، تو فوراً ”انتہا پسند“ قرار پاتا ہے لیکن جب ایک لبرل سینیٹر اسلام،آئین اور قومی تشخص پر حملہ کرے تو وہ روشن خیال کہلاتا ہے۔ یہی وہ دوہرا معیار ہے جو پاکستان میں نظریاتی انارکی کو فروغ دے رہا ہے۔
قادیانیوں کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، عالم اسلام میں کسی بھی ملک نے آج تک ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا۔ سعودی عرب،مصر،انڈونیشیا،ایران،مراکش،ملیشیا،ہر جگہ انہیں غیر مسلم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی پاکستانی تعصب نہیں بلکہ امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
عقیدے کے اس بنیادی معاملے پر امت کے اجماع کو چیلنج کرنا درحقیقت فتنہ انگیزی ہے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی جب جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کیا تھا تو یہی موقف تھا کہ ”نبوت کا دعویٰ کرنے والا اسلام سے خارج ہے۔ یہ معاملہ صرف فقہی یا سیاسی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست پاکستان ایک واضح اور غیر مبہم پالیسی اپنائے۔ قادیانیوں کو ان کی آئینی حیثیت کے مطابق اقلیت مان کر ان کے حقوق کا تحفظ کرے لیکن ان کو اسلامی شعائر استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ آئین میں دی گئی شق 260(3)(b) اور آرڈیننس XX، اس وقت تک برقرار رہیں جب تک وہ آئینی دائرے میں رہ کر اپنی شناخت کے ساتھ جینا سیکھیں۔
رہی بات پرویز رشید اور ان جیسے دیگر افراد کی تو ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دین اور آئین کے خلاف کھلے عام بیانات دینا”آزادی رائے“نہیں بلکہ فتنہ انگیزی اور آئین شکنی ہے اور پرویز رشید اکثر و بیشتر ایسی آئین شکنی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں، جب کہ ن لیگی قیادت کی اس معاملے پر مکمل خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ بھی اسی نظریے اور سوچ کی حامل ہے۔
اگر کسی پولیس اہلکار نے زیادتی کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن اس کی آڑ میں قادیانیت کو تحفظ دینا قوم کے اجتماعی شعور اور ایمانی غیرت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ جو قوم اپنے نظریے، عقیدے اور آئین سے بے وفائی کرتی ہے،وہ کبھی سربلند نہیں ہو سکتی۔ قادیانی مسئلے پر ہمارا مؤقف ایک ہی رہنا چاہیے،غیر مسلم اقلیت،جو اپنے شعائر علیحدہ رکھے اور ریاست کے آئینی و قانونی دائرے میں رہے۔
کسی کو ان کے جان و مال پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی دینی اور آئینی سرحدوں کو مسمار کر دیں۔اللہ تعالیٰ پاکستان کو فتنے،فتنہ گروں اور منافقین کے شر سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے دین،آئین اور عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
Author
-
سینئر صحافی، کالم نگار اور بلاگر ہیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
View all posts