ایران کے جوہری توانائی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں کے باوجود ایران کا جوہری پروگرام نہ رُکا ہے اور نہ ہی ختم ہوا ہے، ممکنہ حملوں کے پیش نظر پہلے ہی متبادل انتظامات کیے جا چکے تھے۔
نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس کے مطابق محمد اسلامی نے تہران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ اور امریکی فضائی کارروائیوں سے جوہری تنصیبات کو ضرور نقصان پہنچا ہے، لیکن ہماری کوشش ہے کہ پیداوار اور خدمات میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔
ایران کو اپنے جوہری مراکز پر ممکنہ حملوں کا پہلے ہی خدشہ تھا، اسی لیے پیشگی اقدامات کیے گئے تھے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بحالی فوری ممکن ہو سکے۔
واضح رہے کہ یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب 13 جون سے جاری اسرائیلی کارروائیوں کے دوران اتوار کی صبح امریکی بنکر بسٹر بموں اور میزائل حملوں میں ایران کے کئی جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کا مقصد ایران کے یورینیم افزودگی اور تحقیقی پروگرام کو نقصان پہنچانا بتایا گیا ہے۔
گزشتہ شب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور دونوں فریقین سے معاہدے کی پاسداری کی اپیل کی تھی۔ تاہم، چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ ایران نے شمالی اسرائیل پر دو میزائل داغے ہیں، جنہیں روک لیا گیا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی ایس این اے نے ان الزامات کو “بے بنیاد” قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے (IAEA) کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو خط لکھ کر ملاقات کی تجویز دی ہے۔ گروسی کا کہنا ہے کہ اگر ایران ایجنسی کے ساتھ تعاون بحال کرے تو موجودہ تنازع کا سفارتی حل ممکن ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ ایران نے یورینیم کو 60 فیصد خالص سطح تک افزودہ کر رکھا ہے، جو کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب ترین سطح سمجھی جاتی ہے۔
ایران نے کچھ جوہری تنصیبات پر بین الاقوامی معائنہ کاروں کی رسائی روک دی ہے، جب کہ بیلسٹک میزائل پروگرام میں بھی توسیع جاری ہے، جس پر اسرائیل کو شدید تحفظات ہیں۔