جنوری کے ابتدائی دنوں میں زندگی پرسکون معمول کے مطابق چل رہی تھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ایک ایسا سانحہ وقوع پذیر ہونے والا ہے جس کا اثر نہ صرف مقامی افراد بلکہ دنیا بھر پر پڑے گا۔
ایک معمولی سی آگ، جو ابتدا میں جنگل کے ایک چھوٹے سے حصے میں لگی تھی وہ اب ایک آتش فشاں کی طرح پھیل چکی ہے۔
اس آگ نے 40 ہزار ایکڑ زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب تک 27 افراد کی جانیں لے چکی ہے۔
آگ کے شعلے اتنے تیز ہیں کہ ان کی لپیٹ میں آکر ہر چیز راکھ میں تبدیل ہو رہی ہے،تیز ہوائیں اس آگ کی شدت میں مزید اضافہ کر رہی ہیں، اور اس پر قابو پانا امریکی حکام کے لیے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔اس آگ کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 25ہزار افراد کو انخلا کا حکم دے دیا گیا ہے اور 500 قیدیوں کو جیلوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔
وہ تمام کوششیں،جو آگ کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں، تیز ہواؤں کے سامنے بے بس ہو گئی ہیں۔لاس اینجلس کاؤنٹی فائر ڈپارٹمنٹ اور اینجلس نیشنل فارسٹ کے فائر فائٹرز نے اس آگ کو بجھانے کے لیے دن رات ایک کر دیا، لیکن یہ آگ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
اس آگ کے باعث 2 گھنٹوں کے دوران 5 ہزار ایکڑ زمین جل چکی ہے، اور تیزی سے پہاڑوں میں پھیل رہی ہے، جہاں سے اس کی لپیٹ میں آنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ آندھی اور طوفانی ہوائیں مزید آگ کو بڑھا سکتی ہیں، اور اب یہی ہو رہا ہے۔
امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ آگ محض قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ انسانوں کی بے وقوفی اور آتشزنی کا نتیجہ بھی ہے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آتشزنی کے متعدد واقعات میں کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جنہوں نے عمداً جنگلوں کو آگ لگائی تھی۔
ایسی ہی ایک خاتون کو 14 جنوری کی شام گرفتار کیا گیا جس نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ آگ لگانے سے خوش ہوتی ہے۔
اس خاتون کا کہنا تھا کہ”مجھے اس بات کا مزہ آتا ہے کہ جب آگ لگاتی ہوں، تو سب کچھ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔” یہ الفاظ اس خاتون کے تھے جس نے کچرے کے ڈھیر کو آگ لگا کر نہ صرف خود کو بلکہ پورے علاقے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
اس کے علاوہ ایک اور شخص کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا، جس نے درختوں میں آگ لگا کر پورے علاقے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ” وہ جلتے ہوئے پتوں کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتا تھا۔”
امریکی حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگنے والی بیشتر آگ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
2020 میں بھی ایک بڑی آتشزنی نے 44 ہزار ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ سال آتشزنی کے الزام میں 109 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس آگ کے اثرات صرف مقامی آبادی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ کیسے ایک سپر پاور ملک ہونے کے باوجود امریکی حکام اس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
تیز ہواؤں اور آتشزنی کے ان واقعات سے واضح ہو رہا ہے کہ جنگلات کی حفاظت اور آگ کی روک تھام کے حوالے سے عالمی سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔