چین اور تائیوان کے درمیان تاریخ کو لے کر اختلاف بڑھ گیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان کی حکومت جان بوجھ کر اشتعال پھیلا رہی ہے۔ بیجنگ نے کہا کہ تائیوان پہلے ہی چین کا حصہ ہے، اس لیے اسے قبضے کی ضرورت نہیں۔
چین، تائیوان کو اپنی سرزمین کا حصہ قرار دیتا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس پر عسکری و سیاسی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ بیجنگ کو تائیوان کے موجودہ صدر لائی چنگ-تے کی پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور انہیں علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔

صدر لائی نے اتوار سے اب تک قوم کو متحد کرنے کے موضوع پر دو تقاریر کی ہیں، جو کہ 10 تقاریر پر مشتمل سلسلے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تائیوان یقیناً ایک ملک ہے اور چین کو اس پر نہ قانونی حق حاصل ہے نہ تاریخی۔
چینی دفتر برائے امورِ تائیوان کی ترجمان ژو فینگ لیان نے بدھ کے روز ایک بریفنگ میں کہا کہ، اگرچہ آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کا دوبارہ اتحاد مکمل نہیں ہوا، لیکن یہ تاریخی اور قانونی حقیقت بدستور قائم ہے کہ دونوں جانب کے ہم وطن ایک ہی چین سے تعلق رکھتے ہیں۔
بیجنگ کی جانب سے تائیوان کے گرد عسکری مشقوں اور جنگی طیاروں کی پروازوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں چین کی آخری بڑی فوجی مشقیں ہوئیں، اور تائیوان کی وزارتِ دفاع کے مطابق چینی فضائیہ اور بحریہ روزانہ کی بنیاد پر سرگرم ہیں، جن میں کبھی کبھار درجنوں جنگی طیارے شامل ہوتے ہیں۔

جب ایک رپورٹر نے امریکی بیانات کے تناظر میں چینی مشقوں کو حملے کی تیاری قرار دیا تو ژو فینگ لیان نے جواب دیا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے یہاں کسی ‘حملے’ کی بات ہی نہیں ہو سکتی۔
اس کے برعکس، صدر لائی کا کہنا ہے کہ تائیوان کے مستقبل کا فیصلہ صرف تائیوان کی عوام کریں گی۔ منگل کی شب ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ تائیوان کی آزادی کا مطلب ہے کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کا حصہ نہیں ہیں۔
تاریخی پس منظر کے طور پر صدر لائی نے کہا کہ جمہوریہ چین کی عمر کتنی ہے؟ 113 سال۔ اور عوامی جمہوریہ چین؟ صرف تقریباً 70 سال۔ بات بالکل واضح ہے۔
دوسری جانب، دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کی 80ویں سالگرہ بھی چین اور تائیوان کے درمیان ایک حساس معاملہ بن چکی ہے۔ چین نے تائیوان کی سابقہ افواج کے بزرگ اہلکاروں کو ستمبر میں بیجنگ میں ایک فوجی پریڈ میں مدعو کیا ہے، جس پر تائیوان نے اعتراض کیا ہے۔
تائیوان کے وزیرِ دفاع ویلنٹائن کو نے پارلیمنٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا جنگِ مزاحمت کی قیادت اور کامیابی جمہوریہ چین نے حاصل کی، نہ کہ عوامی جمہوریہ چین – اس میں کوئی شک نہیں۔
ابھی تک چین یا تائیوان کی جانب سے اس تنازع کے سفارتی حل کے امکانات پر کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔