Follw Us on:

حالیہ نیٹو اجلاس امریکی صدر کے لیے ’ایک بڑی فتح‘ کیسے ثابت ہوا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Nato
انٹیلیجنس ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ آئندہ تین سے پانچ سالوں میں روس کا خطرہ یورپ کے لیے اور سنگین ہو سکتا ہے۔ (نیو یارک ٹائمز)

نیٹو کا حالیہ سربراہی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مطمئن کرنے کی ایک شعوری کوشش ثابت ہوا، جس میں یورپی اتحادیوں نے روسی خطرے سے نمٹنے کے لیے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافے پر اتفاق کیا۔

بدھ کے روز ہالینڈ میں ہونے والے اجلاس میں اس بات پر رضامندی ظاہر کی گئی کہ نیٹو کے رکن ممالک 2035 تک اپنی مجموعی قومی آمدنی کا پانچ فیصد دفاع پر خرچ کریں گے۔ اس میں 3.5 فیصد روایتی عسکری ضروریات جیسے فوج، ہتھیار اور میزائل پر، جب کہ باقی 1.5 فیصد سائبر سیکیورٹی، ہنگامی طبی سہولیات اور سڑکوں جیسے نیم عسکری منصوبوں پر صرف ہوگا۔

صدر ٹرمپ، جو نیٹو اتحادیوں پر بارہا الزام لگا چکے ہیں کہ وہ امریکا پر انحصار کرتے ہوئے اپنی سلامتی کے لیے خاطر خواہ اخراجات نہیں کرتے، اس فیصلے سے خوش دکھائی دیے۔ ان کے مطابق یہ اقدام امریکا کی قائدانہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، اور انہوں نے اسے ایک بہترین اجلاس قرار دیا۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے صدر ٹرمپ کے نیٹو کے اجتماعی دفاعی معاہدے، آرٹیکل 5، کے ساتھ وابستگی پر پیدا ہونے والے سوالات پر مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ امریکا اس شق پر مکمل طور پر کاربند ہے۔

Trump
کچھ نے اسے صدر ٹرمپ کی فتح قرار دیا تو بعض نے اسے سطحی اور دیرپا نتائج سے خالی قدم کہا۔ (فوٹو: دی نیو یارک ٹائمز)

تاہم اس نئی پالیسی کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ نے اسے صدر ٹرمپ کی فتح قرار دیا تو بعض نے اسے سطحی اور دیرپا نتائج سے خالی قدم کہا۔ سینیٹر کرسٹوفر کونز نے اسے تاریخی پیش رفت کہا لیکن اس بات پر زور دیا کہ اگر یہ رقم منظم طریقے سے نہ خرچ کی گئی تو یہ افراط زر اور نمائشی اخراجات سے زیادہ کچھ نہ ہوگی۔

سابق نیشنل سیکیورٹی افسر ٹوری توسگ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی جنگ جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کیا گیا، اور اجلاس میں نہ تو روس کے خلاف مستقبل کی حکمت عملی پر بحث ہوئی اور نہ چین جیسے ابھرتے خطرات پر کوئی بات چیت کی گئی۔ بعض یورپی ممالک، جیسے اسپین، سلوواکیہ اور بیلجیئم نے بھی پانچ فیصد دفاعی خرچ کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔

اعلامیے میں اس نکتے کی وضاحت کی گئی کہ یہ اتفاق “اتحادیوں” کا ہے، “تمام اتحادیوں” کا نہیں، گویا کچھ ممالک کو اس ہدف سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ مارک روٹے نے صدر ٹرمپ کو ایک ذاتی پیغام میں سراہا کہ وہ یورپی ممالک کو ان کے اپنے مفاد میں وہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جو وہ برسوں سے نہیں کر سکے تھے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، نیٹو نے ایسا راستہ اپنایا ہے جو وقتی طور پر صدر ٹرمپ کو راضی کرتا ہے اور اتحاد کی سلامتی کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بچائے رکھتا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ یورپی رہنما اپنے عوام کو اس دفاعی اخراجات کے نئے ہدف کے بارے میں قائل کر پائیں گے یا نہیں، یہ ایک مشکل سوال ہے، خاص طور پر جب موجودہ خطرات واضح اور فوری نہ لگیں۔

Nato ,
روٹے نے اعلان کیا کہ نیٹو یوکرین کی حمایت جاری رکھے گا اور اس کی رکنیت کا وعدہ برقرار رہے گا۔ (فوٹو: دی نیو یارک ٹائمز)

بعض انٹیلیجنس ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ آئندہ تین سے پانچ سالوں میں روس کا خطرہ یورپ کے لیے اور سنگین ہو سکتا ہے، اس لیے نئے اخراجات کو فوری اور مؤثر فوجی صلاحیتوں میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔

یوکرین، جس پر روسی حملہ جاری ہے، اس سربراہی اجلاس میں پسِ پردہ چلا گیا۔ اگرچہ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ٹرمپ سے ملاقات کی، مگر نیٹو کی رکنیت کے حوالے سے کوئی باضابطہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ تاہم، روٹے نے اعلان کیا کہ نیٹو یوکرین کی حمایت جاری رکھے گا اور اس کی رکنیت کا وعدہ برقرار رہے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یوکرین اور روس جیسے معاملات اجلاس کا مرکزی موضوع ہونے چاہیے تھے، لیکن ٹرمپ کی سیاسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیٹو اتحادیوں نے اجلاس کی ترتیب اس طرح رکھی کہ سب سے پہلے امریکا کی ناراضگی کو ختم کیا جا سکے، اور پھر یوکرین جیسے معاملات کو دیکھا جائے۔

یہ اجلاس ایک ایسا منظرنامہ پیش کرتا ہے جہاں اتحاد کو داخلی دباؤ، سیاسی توازن، اور عالمی خطرات کے بیچ تیزی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ طے کرنا ہے کہ آیا نیٹو مستقبل میں محض ایک نمائشی اتحاد رہ جائے گا یا حقیقی دفاعی شراکت داری کا استعارہ بنے گا۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس