گزشتہ چند ماہ سے مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں رہا، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست اور بالواسطہ محاذ آرائیوں نے پورے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ مگر حالیہ جنگ بندی کے بعد ایک بار پھر امن کی امید نے جنم لیا ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں پاکستان کے لیے سوال یہ ہے کہ وہ اس سفارتی خلا کو کیسے پُر کرے اور عالمی و علاقائی سطح پر اپنا تعمیری کردار کس انداز سے ادا کرے؟
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسلم ملک بھی ہے، جوکہ اسلامی دنیا میں ایک معتدل اور متوازن آواز رہا ہے۔پاکستان کے نہ صرف ایران کے ساتھ مذہبی، ثقافتی، معاشی اور جغرافیائی روابط قائم ہیں، بلکہ مسئلہ فلسطین پر بھی پاکستان کا ایک اصولی اور دو ٹوک مؤقف رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران-اسرائیل تنازع اور اب جنگ بندی کے بعد پاکستان کے لیے ایک نیا سفارتی موقع پیدا ہوا ہے، جہاں وہ نہ صرف خطے میں امن کے قیام میں کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ امت مسلمہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔
اس سفارتی پس منظر میں ماہر عالمی امور پروفیسر عرفان علی فانی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس وقت سمارٹ نیوٹرلٹی پر مبنی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا متوازن اور اصولی مؤقف اپنانا چاہیے جو مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ عالمی امن کی حمایت بھی کرے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ایران کی سالمیت کا احترام ضروری ہے، لیکن اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف سے گریز کرنا سفارتی دائرے کو کھلا رکھنے کے لیے اہم ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) پاکستان کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے جہاں وہ ایران-اسرائیل کشیدگی سے جنم لینے والی پیچیدگیوں پر اسلامی دنیا کو ایک صف میں لا سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ او آئی سی کے رکن ممالک کو ایک مشترکہ لائحہ عمل کے تحت جنگ بندی کو مستقل بنانے، فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے اور مشرقِ وسطیٰ میں استحکام کے لیے ایک مضبوط سفارتی محاذ تشکیل دے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے 22ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایران کے خلاف اسرائیل کے بلاجواز اور غیر قانونی فوجی اقدامات کی مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
ماہرِ عالمی امور نے کہا ہے کہ جنگ بندی عارضی ہو سکتی ہے اور اگر کشیدگی دوبارہ بڑھی تو پاکستان پر خلیجی اتحادیوں یا مغربی شراکت داروں کی جانب سے بالواسطہ دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں محتاط رویہ اور خارجہ پالیسی میں تدبر ضروری ہوگا۔ کسی ایک بلاک کی طرف جھکاؤ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے اقتصادی، دفاعی اور سفارتی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے توازن برقرار رکھنا ہوگا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے موجودہ مؤقف کو حالیہ علاقائی اجلاسوں میں بخوبی نمایاں کیا گیا ہے۔ چین کے شہر شان ڈونگ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے دفاع اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈیا کی موجودگی کے باوجود دوٹوک انداز میں پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی بھی مذمت کی، اور غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔

ثالثی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ کردار مکمل طور پر ممکن ہے، بشرطیکہ وہ ایک غیر جانب دار فریق کے طور پر سامنے آئے۔ پاکستان کو بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے اعتماد سازی کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ قطر یا عمان جیسا اثر نہ ہونے کے باوجود، پاکستان مسلم دنیا میں اپنی حیثیت کی بنیاد پر یہ کردار ادا کر سکتا ہے۔
اجلاس کے اختتام پر تمام رکن ممالک نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے، تاہم انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے دستخط سے انکار کر دیا۔ اجلاس میں انڈیا وفد کی جانب سے اس اقدام پر کوئی فوری ردعمل نہیں آیا، تاہم مبصرین کے مطابق یہ انکار پاکستان کے مؤقف کی عالمی سطح پر مؤثر نمائندگی کا بالواسطہ اعتراف بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
پروفیسر فانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے عالمی فورمز پر اپنا بیانیہ ضرور پیش کرنا چاہیے۔ خاموشی پاکستان کی مسلم دنیا میں پوزیشن کو کمزور کر سکتی ہے۔ ایک متوازن، مگر واضح مؤقف ہی پاکستان کی عالمی ساکھ کو مستحکم رکھے گا۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان داخلی طور پر معاشی، سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں ایک متحرک اور فعال خارجہ پالیسی کے لیے اندرونی استحکام ناگزیر ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو ریاستی اداروں، پارلیمان اور عوامی رائے سے ہم آہنگ رکھے تاکہ عالمی سطح پر اس کا موقف نہ صرف متفقہ ہو بلکہ مضبوط بھی ہو۔
پاکستان اس وقت ایک نازک سفارتی مقام پر کھڑا ہے، جہاں غیر جانب داری اور اصولی مؤقف، دونوں کو یکجا رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستان، مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کے ساتھ ساتھ تعلیم، ثقافت اور بین المذاہب مکالمے کے ذریعے بھی خطے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایرانی اور فلسطینی تعلیمی اداروں کے ساتھ روابط، میڈیا تعاون اور ثقافتی وفود کے تبادلے جیسی سرگرمیاں پاکستان کی سافٹ ڈپلومیسی کو تقویت بخش سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک موقع ہے، جس سے نہ صرف خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان بھی سفارتی میدان میں اپنی حیثیت کو مستحکم کر سکتا ہے۔ غیر جانب دار ثالثی، اصولی مؤقف، انسانی ہمدردی، او آئی سی میں قیادت اور داخلی استحکام کے ذریعے پاکستان ایک تعمیری اور دیرپا سفارتی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے اسلامی دنیا کے لیے قابلِ فخر کردار ادا کر سکتا ہے۔