جاپان میں تقریباً تین سال بعد پہلی بار کسی شخص کو سزائے موت دی گئی ہے، سزا پانے والے تاکاہیرو شیراشی نامی مجرم کو جمعے کے روز پھانسی دے دی گئی۔
شیراشی کو “ٹوئٹر قاتل” کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نوجوان متاثرین سے رابطہ کرتا تھا۔ اُس نے 2017 میں نو افراد جن میں آٹھ خواتین اور ایک مرد شامل تھے، کو اپنے اپارٹمنٹ میں بلا کر گلا گھونٹ کر قتل کیا تھا۔
وزیرِ انصاف کیسو کے سوزوکی نے پھانسی کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ مجرم کا مقصد انتہائی خود غرض اور سنگدلانہ تھا، اور اس کے جرائم نے جاپانی معاشرے کو گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
یہ سزائے موت جولائی 2022 کے بعد پہلی ہے، جب ایک اور قاتل کو ٹوکیو کے علاقے اکیہابارا میں 2008 میں ہونے والے چاقو حملے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔

یہ بھی پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سزائے موت پر عمل ہوا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال ایک عدالت نے 87 سالہ ایواو ہاکامادا کو بری کیا تھا، جنہوں نے دنیا کا سب سے طویل عرصہ تقریباً 60 سال موت کی سزا میں گزارا، اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بےگناہ تھے۔
جاپان میں پھانسی کا طریقہ کار بھی عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کی اطلاع صرف چند گھنٹے قبل دی جاتی ہے، جسے انسانی حقوق کے ادارے “ذہنی اذیت” قرار دیتے ہیں۔
وزیرِ انصاف سوزوکی نے واضح کیا کہ موجودہ حالات میں جب پرتشدد جرائم بدستور ہو رہے ہیں، سزائے موت کا خاتمہ مناسب نہیں۔ اس وقت جاپان میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد 105 ہے۔