سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کوٹو ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ عوامی ضرورت کا آئینہ دار ہے، جو صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی توانائی اور معیشت کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انرجی بحران پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس نے نہ صرف صنعت کو متاثر کیا ہے بلکہ عوام کی روزمرہ زندگی کو بھی اجیرن بنا دیا ہے۔ دیر جیسے اضلاع میں 15 سے 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے، اور ایسے میں مقامی سطح پر بجلی پیدا کرنے والا یہ منصوبہ امید کی کرن ہے۔
سراج الحق نے الزام عائد کیا کہ سابقہ حکومتوں نے نہ صرف اس منصوبے کو نظرانداز کیا بلکہ چھ سال گزر جانے کے باوجود اسے مکمل نہیں کیا جا سکا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ پراجیکٹ 2015 میں 14 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا، جس سے 40 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہوتا تو نہ صرف لوڈشیڈنگ میں کمی آتی بلکہ مقامی صنعت، روزگار اور معیشت کو بھی فروغ ملتا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے سیاسی قیادت نے ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی، اور جب حکومت بدلی تو نئی حکومت نے پچھلی حکومت کے منصوبے کو سرد خانے کی نذر کر دیا۔

ان کے بقول، “یہ منصوبہ عوام کا ہے، کسی وزیر یا ایم این اے کے ذاتی استعمال کے لیے نہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی، تو چھ سال اس منصوبے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، جس کا نقصان دیر کے عوام کو ہوا۔
انہوں نے موجودہ حکومت کو خبردار کیا کہ اگر منصوبے کی تکمیل میں مزید تاخیر ہوئی تو عوام سڑکوں پر آئیں گے، احتجاج ہوگا، اور حکومت کو جواب دینا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دیر جیسے پسماندہ علاقوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے اور ان کے بنیادی مسائل، خصوصاً بجلی کی قلت کو حل کیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ منصوبے کا مکمل فنڈ خیبر پختونخوا کی حکومت نے دیا ہے، اس لیے پیدا ہونے والی بجلی کی اولین ترجیح دیر کے عوام ہونی چاہیے، نہ کہ اسے کسی دوسرے صوبے کو منتقل کیا جائے۔
سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوٹو ہائیڈل پاور پراجیکٹ کو فوری مکمل کیا جائے، بدعنوانی اور سستی کو روکا جائے، اور مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ دیر دہشتگردی، زلزلوں، سیلاب اور معاشی محرومیوں کا شکار رہا ہے، اس لیے یہاں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ صرف قرضے لینے سے غربت ختم نہیں ہوتی، بلکہ انصاف پر مبنی فنڈز کی منصفانہ تقسیم اور ہر علاقے کو برابری کی بنیاد پر وسائل کی فراہمی ہی اصل ترقی کا راستہ ہے۔