خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق شام میں اس سال علوی فرقے سے تعلق رکھنے والی کم از کم 33 خواتین اور لڑکیاں لاپتہ ہو چکی ہیں جن کی عمریں 16 سے 39 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے متعدد کو مبینہ طور پر اغوا کر کے ان کے خاندانوں سے تاوان طلب کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان خواتین کی گمشدگی زیادہ تر ساحلی گورنریٹس طرطوس، اللاذقیہ اور حماہ میں پیش آئی، جہاں علوی آبادی کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ واقعات اس وقت سے تیزی سے پیش آ رہے ہیں جب سے دسمبر میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں نئی حکومت قائم ہوئی۔

ایک واقعے میں، 29 سالہ عبیر سلیمان 21 مئی کو صفیتا کے علاقے سے لاپتہ ہوئیں۔ ان کے اہل خانہ کو واٹس ایپ پر پیغام ملا جس میں کہا گیا کہ ‘اِس کا انتظار نہ کرو، یہ واپس نہیں آئے گی’۔ بعد ازاں اغوا کاروں نے فون کے ذریعے پندرہ ہزار ڈالر کے تاوان کا مطالبہ کیا، بصورت دیگر جان سے مارنے یا غلامی میں فروخت کرنے کی دھمکی دی۔
مزید پڑھیں: ایران-اسرائیل جنگ بندی: پاکستان کا سفارتی کردار کیا ہونا چاہیے؟
عبیر نے 29 مئی کو اسی فون نمبر سے اپنے گھر والوں کو کال کی، جو اغوا کار استعمال کر رہے تھے، اور بتایا کہ وہ شام میں نہیں ہیں اور اردگرد کی بولیاں انجان ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے دوستوں اور ہمسایوں سے قرض لے کر یہ رقم ترکی کے شہر ازمیر میں تین اکاؤنٹس میں منتقل کی، مگر اس کے بعد اغوا کاروں کا رابطہ منقطع ہو گیا اور ان کا فون بند ہو گیا۔ عبیر کی موجودہ صورت حال کے بارے میں خاندان کو کچھ علم نہیں۔

شامی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ البتہ طرطوس کے گورنر کے میڈیا افسر احمد محمد خیر نے دعویٰ کیا کہ خواتین کی گمشدگی اغوا نہیں بلکہ گھریلو تنازعات یا ذاتی وجوہات کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لڑکیاں جبری شادی سے بچنے یا توجہ حاصل کرنے کے لیے خود غائب ہو جاتی ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے کمیشن برائے شام نےخبر رساں ایجنسی رائٹرز کو تصدیق کی کہ وہ علوی خواتین کی گمشدگی کی حالیہ رپورٹس کی روشنی میں تحقیقات کر رہا ہے اور مکمل رپورٹ انسانی حقوق کونسل میں پیش کی جائے گی۔

انسانی حقوق کے شامی کارکن یامن حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر گمشدگیاں مارچ کے بعد سامنے آئیں اور اب خواتین اسکول اور کالج جانے سے بھی گریز کر رہی ہیں۔ ان کے بقول،یقینی طور پر علوی خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو ماضی میں اسد حکومت کے ہاتھوں استعمال ہونے والی ذلت آمیز حکمت عملی کی جھلک ہے۔
بعض خواتین کی واپسی کے بعد ان کے خاندانوں نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بیان دینے سے گریز کیا ہے۔ کئی خاندانوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے کیسز کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور شفاف تحقیقات نہیں کی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کچھ مغوی خواتین نے پیغامات میں بتایا کہ انھیں ملک سے باہر لے جایا گیا ہے، تاہم زیادہ تر کا تاحال کوئی سراغ نہیں ملا۔