عالمی عدالتِ ثالثی (پی سی اے) نے اپنے جاری کردہ ”سپلیمنٹل ایوارڈ“ میں واضح کیا کہ انڈیا 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ یا معطل نہیں کر سکتا۔ عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت قائم ثالثی یا نیوٹرل ایکسپرٹ کی بھی اہلیت برقرار ہے اور انڈیا کا یہ دعویٰ کہ اس نے معاہدہ معطل کر دیا ہے، قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس فیصلے نے عوامی و سیاسی حلقوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے، یہ سوالات کیے جارہے ہیں کہ اگر انڈیا ثالثی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو پاکستان کیا فیصلہ کرے گا اور اس کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اگر بات کی جائے سندھ طاس معاہدے کی تو یہ معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں پاکستان اور انڈیا کے مابین ہوا تھا، جس کے نتیجے میں تین دریا بیاس، راوی اور ستلج انڈیا کو، جب کہ چناب، سندھ اور جہلم پاکستان کے حصے میں قرار دیے گئے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کچھ شروع سے ہی کافی پیچیدہ رہے ہیں، مگر 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو اتنا کشیدہ کردیا کہ سیاسی و عوامی دونوں سطح پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی لہر دیکھنے کو ملی۔
پہلگام کے سیاحتی مقام پر اچانک سے بندوقوں سے لیس کچھ دہشتگرد آکر سیاحوں پر فائرنگ کرنا شروع کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً 25 سے زائد افراد شہید ہوگئے، انڈیا نے محض چند منٹوں میں اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے نہ صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا بلکہ پاکستانی شہریوں کو جلد از جلد ملک چھوڑنے کا کہتے ہوئے پاکستانی فوجی اتاشیوں کو ناپسندیدہ ترین شخصیات قرار دیا۔

انڈین پابندیوں کے جواب میں پاکستان نے شملہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے کئی اہم اقدامات اٹھائے اور اعلان کیا کہ انڈیا سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، جس کے بعد پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی سطح پر اقدامات اٹھائے۔
گزشتہ روز عالمی عدالتِ ثالثی سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کی رو سے کوئی بھی فریق خود بخود معاہدہ معطل نہیں کرسکتا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جمال جعفر نے کہا ہے کہ عالمی عدالتِ ثالثی کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر سندھ طاس معاہدے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو تقویت دی ہے۔ عدالت نے اس بات کی بھی توثیق کی ہے کہ معاہدے کے تحت تکنیکی اختلافات کو کس طریقہ کار سے حل کیا جائے گا، جو اس کی قانونی افادیت اور تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔ مستقبل میں بھی جب تک دونوں ممالک اس معاہدے کو برقرار رکھتے ہیں، یہ خطے میں آبی تنازعات کے حل کا بنیادی حوالہ رہے گا۔
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ معاہدے کی سپلیمنٹل ایوارڈ آف کمپٹینس جاری کرنے کا اختیار برقرار ہے اور انڈیا کی جانب سے معاہدے کو ’ابھیئنس‘ میں رکھنے کا اقدام اس عدالت کی کارروائی کو نہیں روک سکتا۔
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہنا تھا کہ آبی وسائل پر کام کر رہے ہیں، پانی ہماری لائف لائن ہے، انڈیا سندھ طاس یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ثالثی عدالت کے فیصلے سے پاکستانی مؤقف کو تقویت ملی ہے۔

دوسری جانب انڈین وزارتِ خارجہ نے اس عدالت کے دائرہ اختیار کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے کبھی بھی اس نام نہاد عدالتی فورم کو قانونی تسلیم نہیں کیا اور اس کی تشکیل ہی معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انڈیا کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ موجودہ قومی سلامتی کے خدشات کے تحت اس نے معاہدے کو وقتی طور پر معطل کر رکھا ہے، جو 24 اپریل 2025 کے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے بعد کیا گیا تھا اور اسی کو مؤقف بناتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے خون اور پانی ساتھ نہیں بہہ سکتے۔
ایڈووکیٹ جمال جعفر نے کہا ہے کہ عالمی قوانین اور معاہداتی اصولوں کے مطابق کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر کسی دو طرفہ معاہدے سے اس وقت تک دستبردار نہیں ہو سکتا جب تک اس میں ایسا کوئی خاص “termination clause” نہ ہو۔ سندھ طاس معاہدہ ایک ’perpetual‘ یعنی مستقل نوعیت کا معاہدہ ہے، جس میں دستبرداری کی کوئی شق موجود نہیں۔انڈیا اگر اسے یکطرفہ طور پر معطل یا ختم کرتا ہے تو وہ نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا بلکہ بین الاقوامی قانون، خاص طور پر “Vienna Convention on the Law of Treaties” 1969 کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہو گا، جس کا اثر اس کی عالمی ساکھ پر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان نے عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کیا کہ انڈیا نے معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوشش کی اور عدالت نے اس کی اہلیت برقرار رکھی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں بھی مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کے ذریعے طے پایا تھا، پاکستان اس فورم کا جائز کردار تسلیم کرتا ہے اور پاکستانی حکومت بھی عالمی بینک کے ذریعے ثالثی کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔
امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ کا کہنا تھا کہ عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے میں انڈین اقدامات کو غیرقانونی قرار دینا پاکستان کے مؤقف کی فتح ہے۔ دریائے سندھ پاکستان، خصوصاً سندھ کی لائف لائن ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ سندھو دریا کا پانی پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگی، معیشت اور زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

معاہدے کے کنونشن کی 1969 ویننا کنونشن کے مطابق معاہدے میں خود بخود ختم ہونے یا معطل ہونے کی کوئی بھی شق نہیں رکھی گئی۔ عالمی بینک اور نیوٹرل ماہرین بھی معاملے میں شامل ہیں، جو کسی بھی تحریک کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ پی سی اے نے واضح کر دیا ہے کہ انڈیا معاہدہ سے انکار تو کر سکتا ہے، مگر قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
اگر انڈیا سندھ طاس معاہدے سے عملدرآمد بند رکھتا ہے توسندھ طاس دریاؤں پر پاکستان کی انحصار ہے، پانی کی رکاوٹ سے کسان، صنعت اور عوام کو شدید نقصان ہوگا۔ پانی کا کنٹرول انسانی جانوں سے وابستہ ہو سکتا ہے اور پانی پر لڑائی فوجی شخوضات کا سبب بن سکتی ہے۔ یو ایس، چین اور دیگر عالمی طاقتیں بھی اس تنازع کا حصہ ہوسکتی ہیں۔
ایڈووکیٹ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ اگر انڈیا عالمی فیصلوں کو نظرانداز کرتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں آبی سلامتی، معاشی ترقی اور خطے کے امن کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ دوسرے ہمسایہ ممالک جیسے نیپال اور بنگلہ دیش بھی انڈیا کی نیت پر سوال اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ وہ بھی انڈیاکے ساتھ دریائی پانیوں کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ خطے میں اعتماد کی فضا کمزور ہو گی، جس کا فائدہ غیر ریاستی عناصر اٹھا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی طاقتوں کا کردار بنیادی طور پر سفارتی، سیاسی یا تکنیکی دباؤ تک محدود ہوتا ہے۔ امریکا اور عالمی بینک، جو اس معاہدے کے ضامنوں میں شامل رہے ہیں، ثالثی میں سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عالمی بینک ماضی میں بھی کئی بار اس معاہدے کے تکنیکی پہلوؤں پر دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا آگے کیا اقدامات اٹھاتا ہے، آیا کہ وہ سندھ طاس معاہدہ پر عمل در آمد شروع کرتا ہے یا معطل کیے رکھتا ہے اور اگر انڈیا معاہدہ معطل کرتا ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اگر حالات یونہی رہے تو جلد دنیا ایک اور جنگ دیکھے گی اور ممکن ہے کہ یہ تیسری جنگِ عظیم کی ابتدا بھی ہو۔ خیر اس کا جواب تو اب وقت ہی بتائے گا۔